Tafseer-e-Usmani - Hud : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّھُمْ : بیشک وہ يَثْنُوْنَ : دوہرے کرتے ہیں صُدُوْرَھُمْ : اپنے سینے لِيَسْتَخْفُوْا : تاکہ چھپالیں مِنْهُ : اس سے اَلَا : یاد رکھو حِيْنَ : جب يَسْتَغْشُوْنَ : پہنتے ہیں ثِيَابَھُمْ : اپنے کپڑے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کے بھید
سنتا ہے وہ دوہرے کرتے ہیں اپنے سینے تاکہ چھپائیں اس سے سنتا ہے جس وقت اوڑھتے ہیں اپنے کپڑے جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں وہ تو جاننے والا ہے دلوں کی بات9
9 سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ مجرم حاضر ہو، حاکم سزا دینے کی پوری قدرت اور کامل اختیار رکھتا ہو۔ مجرمین کی کل کارروائیاں اس کے علم میں ہوں۔ " الی مرجعکم " میں بتلا دیا کہ مجرم وغیر مجرم سب کو خدا کے یہاں حاضر ہونا ہے۔ " وہو علٰی کل شیءٍ قدیر " میں قدرت واختیار کا عموم بیان فرمایا اور (اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ ) 11 ۔ ہود :5) سے " بِذَات الصُّدُوْرِ " تک اس کے علم محیط کی وسعت کو ظاہر کیا کہ خدا ہر کھلی چھپی چیز کو یکساں جانتا ہے حتیٰ کہ دلوں کی تہ میں جو خیالات، ارادے اور نیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں ان پر بھی مطلع ہے۔ پھر کوئی مجرم اپنے جرم کو کس طرح اس سے مخفی رکھ کر نجات پاسکتا ہے۔ (تنبیہ) ان آیات کے شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح ترین روایت ابن عباس کی بخاری میں ہے کہ بعض مسلمانوں پر حیاء کا اس قدر حد سے زیادہ غلبہ ہوا کہ استنجا یا جماع وغیرہ ضروریات بشری کے وقت کسی حصہ بدن کو برہنہ کرنے سے شرماتے تھے کہ آسمان والا ہم کو دیکھتا ہے۔ برہنہ ہونا پڑتا تو غلبہ حیاء سے جھکے جاتے اور شرم گاہ کو چھپانے کے لیے سینہ کو دوہرا کئے لیتے تھے۔ اس طرح کے آثار کبھی کبھی غایت تادب مع اللہ اور غلبہ حیاء سے ناشی ہوسکتے ہیں۔ اور ایسے لوگ " صوفیہ " کی اصطلاح میں " مغلوب الحال " کہلاتے ہیں چونکہ صحابہ ؓ کا کسی مسئلہ میں ایسا غلو اور تعمق آئندہ امت کو ضیق میں مبتلا کرسکتا تھا اس لیے قرآن نے (اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ) 11 ۔ ہود :5) سے ان کی اصلاح فرما دی یعنی اگر بوقت ضرورت بدن کو کھولنے میں خدا سے حیاء آتی ہے اس لیے جھکے جاتے ہو تو غور کرو کہ کپڑے پہننے کی حالت میں تمہارا ظاہر و باطن کیا خدا کے سامنے نہیں ہے ؟ جب انسان اس سے کسی وقت نہیں چھپ سکتا پھر ضروریات بشریہ کے متعلق اس قدر غلو سے کام لینا ٹھیک نہیں۔ واضح ہو کہ ربط آیات کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک آیت کا مضمون دوسری کے مضمون سے مناسبت رکھتا ہو، سبب نزول سے مناسبت رکھنا ضروری نہیں۔
Top