Tafseer-e-Usmani - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور کوئی نہیں چلنے والا زمین پر مگر اللہ پر ہے اس کی روزی1 اور جانتا ہے جہاں وہ ٹھہرتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے2 سب کچھ موجود ہے کھلی کتاب میں3
1 پہلے علم الٰہی کی وسعت بیان ہوئی تھی یہ اسی مضمون کا تکملہ ہے۔ یعنی زمین پر چلنے والا ہر جاندار جسے رزق کی احتیاج لاحق ہو، اس کو روزی پہنچانا خدا نے محض اپنے فضل سے اپنے ذمہ لازم کرلیا ہے۔ جس قدر روزی جس کے لیے مقدر ہے یقینا پہنچ کر رہے گی۔ جو وسائل و اسباب بندہ اختیار کرتا ہے، وہ روزی پہنچنے کے دروازے ہیں۔ اگر آدمی کی نظر اسباب و تدابیر اختیار کرتے وقت مسبب الاسباب پر ہو تو یہ توکل کے منافی نہیں البتہ خدا کی قدرت کو ان اسباب عادیہ میں محصور و مقید نہ سمجھا جائے۔ وہ گاہ بگاہ سلسلہ اسباب کو چھوڑ کر بھی روزی پہنچاتا یا اور کوئی کام کردیتا ہے بہرحال جب تمام جانداروں کی حسب استعداد غذاء اور معاش مہیا کرنا حق تعالیٰ کا کام ہے تو ضروری ہے کہ اس کا علم ان سب پر محیط ہو ورنہ ان کی روزی کی خبر گیری کیسے کرسکے گا۔ 2 حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " مستقر " (جہاں ٹھہرتا ہے) بہشت و دوزخ اور مستودَع (جہاں سونپا جاتا ہے) اس کی قبر ہے۔ (وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) 11 ۔ ہود :6) میں دنیاوی زندگی کا بیان تھا۔ یہاں برزخ اور آخرت کا بیان ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ خدا ابتداء سے انتہاء تک تمہاری ہستی کے تمام درجات کا علم رکھتا ہے۔ " مستقر " و " مستودع " کی تعیین میں مفسرین کے بہت اقوال ہیں پہلے سورة " انعام " میں بھی ہم کچھ لکھ چکے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ زمین میں جہاں تک چلے پھرے اس کی منتہائے سیر کو مستقر اور پھر پھرا کر جس ٹھکانے پر آئے اسے " مستودع " کہتے ہیں۔ ابن عباس کے نزدیک اس زندگی میں جہاں رہے وہ " مستقر " اور موت کے بعد جہاں دفن کیا جائے وہ " مستودع " ہے، مجاہد نے " مستقر " سے رحم مادر اور " مستودع " سے صلب پدر مراد لی ہے۔ عطاء نے اس کے عکس کا دعویٰ کیا بعض متفلسفین کا خیال ہے کہ زمین میں حیوانات کا جو مسکن بالفعل ہے اسے " مستقر " اور وجود فعلی سے پہلے جن مواد و مقار میں رہ کر آئے انھیں " مستودع " کہا گیا ہے یعنی حق تعالیٰ ان تمام مختلف مواد اور اطوار و ادوار کا عالم ہے جن میں سے کوئی حیوان گزر کر اپنی موجودہ ہیئت کذائی تک پہنچا ہے۔ وہ ہی اپنے علم محیط سے ہر مرتبہ وجود میں اس کی استعداد کے مناسب وجود و کمالات وجود فائض کرتا ہے۔ 3 یعنی " لوح محفوظ " میں جو صحیفہ علم الٰہی ہے۔ پھر علم الٰہی میں ہر چیز کیسے موجود نہ ہوگی۔
Top