Tafseer-e-Usmani - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب دیکھا ان کے ہاتھ نہیں آتے کھانے پر تو کھٹکا اور دل میں ان سے ڈرا5 وہ بولے مت ڈر ہم بھیجے ہوئے آئے ہیں طرف قوم لوط کی6 
5 کہ آخر یہ کون ہیں، کس غرض سے آئے ہیں ؟ ہم کھانا پیش کرتے ہیں، یہ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس وقت کے دستور کے موافق جو مہمان کھانے سے انکار کرتا، سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی اچھے خیال سے نہیں آیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) گھبرائے کہ اگر آدمی ہیں تو کھانے سے انکار کرنا ضرور کچھ معنی رکھتا ہے اور فرشتے ہیں تو نہ معلوم کس مطلب کے لیے بھیجے گئے ہیں، آیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی یا میری قوم کے حق میں کوئی ناخوشگوار چیزلے کر آئے۔ اسی حیص و بیص میں زبان سے اظہار بھی کردیا۔ (اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ ) 15 ۔ الحجر :52) یعنی ہم کو تم سے اندیشہ ہے۔ عموما مفسرین نے ابراہیم کے خوف کی یہ ہی توجہیات کی ہیں۔ مگر حضرت شاہ صاحب نے میرے نزدیک نہایت لطیف توجیہ کی۔ " کہ فرشتوں کے ساتھ جو عذاب الٰہی تھا اور شان غضب و انتقام کے مظہر بن کر قوم لوط کی طرف جا رہے تھے اس کا طبعی اثر یہ تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے قلب پر ایک طرح کے خوف و خشیت کی کیفیت طاری ہوئی جس کا اظہار انہوں نے (اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ ) 15 ۔ الحجر :52) کہہ کر کیا۔ یعنی ہم کو تم سے ڈر لگتا ہے۔ واللہ اعلم۔ 6  یعنی ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہم فرشتے ہیں، جو " قوم لوط " کو تباہ کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ آپ کچھ اندیشہ ضرر کا نہ کیجئے۔
Top