Tafseer-e-Usmani - Hud : 91
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا١ۚ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ١٘ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰشُعَيْبُ : اے شعیب مَا نَفْقَهُ : ہم نہیں سمجھتے كَثِيْرًا : بہت مِّمَّا تَقُوْلُ : ان سے جو تو کہتا ہے وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَنَرٰىكَ : تجھے دیکھتے ہیں فِيْنَا : اپنے درمیان ضَعِيْفًا : ضعیف (کمزور) وَلَوْ : اور اگر لَا رَهْطُكَ : تیرا کنبہ نہ ہوتا لَرَجَمْنٰكَ : تجھ پر پتھراؤ کرتے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تو عَلَيْنَا : ہم پر بِعَزِيْزٍ : غالب
بولے اے شعیب ہم نہیں سمجھتے بہت باتیں جو تو کہتا ہے5 اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو ہم میں کمزور ہے6  اور اگر نہ ہوتے تیرے بھائی بند تو تجھ کو ہم سنگسار کر ڈالتے اور ہماری نگاہ میں تیری کچھ عزت نہیں7
5 سمجھتے سب کچھ تھے لیکن عناد اور حق پوشی سے ایسا کہتے تھے کہ تیری بات کچھ نہیں سمجھتے، نہ معلوم کیا مجذوبوں کی بڑہانک رہا ہے (العیاذ باللہ) اور اگر واقعی وہ ایسی سیدھی اور صاف باتیں بےتوجہی یا غباوت کی وجہ سے سمجھتے نہ تھے تو یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہوگا۔ 6  یعنی ایک کمزور اور بےحقیقت آدمی خواہ مخواہ سارے جہان کو اپنا دشمن بنا رہا ہے۔ اسے چاہیے اپنے حال پر رحم کھائے، بیٹھے بٹھائے اپنے کو موت کے منہ میں ڈالنے سے کیا فائدہ ہے (تنبیہ) بعض سلف نے " ضعیف " کے معنی " ضریرالبصر " (نابینا) کے منقول ہیں۔ شاید کسی خاص وقت میں عارضی طور پر ظاہری بینائی جاتی رہی ہو۔ جیسے یوسف (علیہ السلام) کے فراق میں حضرت یعقوب کا حال ہوا تھا۔ مفسرین نے بعض روایات نقل کی ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) روتے بہت تھے، حتی کہ نگاہ جاتی رہی۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ شعیب ! اس قدر کیوں روتا ہے ؟ جنت کے شوق میں یا دوزخ کے ڈر سے ؟ عرض کیا پروردگار ! تیری لقاء کا خیال کر کے روتا ہوں کہ جس وقت آپ کا دیدار ہوگا نہ معلوم میرے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ ارشاد ہوا تجھ کو ہماری لقاء (دیدار) مبارک ہو، اے شعیب ! اسی لیے میں نے اپنے کلیم موسیٰ ابن عمران کو تیری خدمت کے لیے کھڑا کردیا ہے، کہتے ہیں خدا نے ان کی بینائی واپس کردی۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ بِصِحَّتِہٖ ۔ 7 یعنی تیرے کنبہ کے لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں ان کا خیال آتا ہے ورنہ اب تک تجھے سنگسار کر ڈالتے۔
Top