Tafseer-e-Usmani - Hud : 95
كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠   ۧ
كَاَنْ : گویا لَّمْ يَغْنَوْا : وہ نہیں بسے فِيْهَا : اس میں (وہاں) اَلَا : یاد رکھو بُعْدًا : دوری ہے لِّمَدْيَنَ : مدین کے لیے كَمَا بَعِدَتْ : جیسے دور ہوئے ثَمُوْدُ : ثمود
گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے1 سن لو پھٹکار ہے مدین کو جیسے پھٹکار ہوئی تھی ثمود کو2
1 یہاں قوم شعیب کا کڑک (فرشتہ کی چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور " اعراف " میں " رجفہ " کا لفظ آیا ہے یعنی زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔ اور سورة شعراء میں " عَذَابَ یَوْمِ الظُّلَّۃِ " آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کے بادل سائبان کی طرح ان پر محیط ہوگئے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ تینوں قسم کے عذاب اس قوم کے حق میں جمع کردیئے گئے تھے، پھر ہر سورت میں وہاں کے سیاق کے مناسب عذاب کا ذکر کیا گیا۔ " اعراف " میں تھا کہ ان لوگوں نے شعیب سے کہا کہ ہم تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو اپنی سرزمین سے نکال دیں گے۔ وہاں بتلا دیا کہ جس زمین سے نکالنا چاہتے تھے، اسی کے زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔ یہاں ان کے سخت گستاخانہ مقالات کا ذکر تھا، اس لیے بالمقابل آسمانی " صیحہ " (کڑک) کا ذکر فرمایا۔ گویا عذاب الٰہی کی ایک کڑک میں ان کی سب آوازیں گم ہوگئیں۔ سورة شعراء میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ (فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) 26 ۔ الشعراء :187) یعنی اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے۔ اس کے مقابلہ میں " عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ " کا تذکرہ فرمایا۔ 2 یعنی دونوں " صیحہ " سے ہلاک ہوئے۔
Top