Tafseer-e-Usmani - Ar-Ra'd : 24
سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِؕ
سَلٰمٌ : سلامتی عَلَيْكُمْ : تم پر بِمَا : اس لیے کہ صَبَرْتُمْ : تم نے صبر کیا فَنِعْمَ : پس خوب عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
کہیں گے سلامتی تم پر بدلے اس کے کہ تم نے صبر کیا، سو خوب ملا عاقبت کا گھر6
6 صحیح حدیث میں جنت کے آٹھ دروازے بیان ہوئے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کاملین کی تعظیم و تکریم کے لیے خدا کے پاک فرشتے ہر طرف سے تحائف و ہدایا لے کر حاضر ہوں گے۔ احادیث میں ہے کہ خلق اللہ میں سے اول وہ فقراء مہاجرین جنت میں داخل ہوں گے جو سختیوں اور لڑائیوں میں سینہ سپر ہوتے اور رخنہ بندی کے وقت کام آتے تھے۔ جو حکم ان کو ملتا ان کی تعمیل کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے۔ دنیا کی حاجتیں اور دل کے ارمان دل ہی میں لے کر یہاں سے رخصت ہوگئے۔ قیامت کے دن حق تعالیٰ فرمائے گا میرے وہ بندے کہاں ہیں (حاضر ہوں) جو میرے راستہ میں لڑے، میرے لیے تکلیفیں اٹھائیں اور جہاد کیا۔ جاؤ جنت میں بےکھٹکے داخل ہوجاؤ۔ پھر ملائکہ کو حکم ہوگا کہ میرے ان بندوں کے پاس حاضر ہو کر سلام کرو۔ وہ عرض کریں گے خداوندا ! ہم تیری بہترین مخلوق ہیں کیا ہم بارگاہ قرب کے رہنے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان زمینی باشندوں کے پاس حاضر ہو کر سلام کریں۔ ارشاد ہوگا، ہاں یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے توحید پر جان دی، دنیا کے سب ارمان اپنے سینوں میں لے کر چلے آئے، میرے راستہ میں جہاد کیا اور ہر تکلیف کو خوشی سے برداشت کرتے رہے۔ یہ سن کر فرشتے ہر طرف سے ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور کہیں گے (سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ) 13 ۔ الرعد :24) حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ہر سال آغاز میں قبور شہداء پر تشریف لے جاتے اور فرماتے (سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ) 13 ۔ الرعد :24) یہ ہی طرز عمل ابو بکر، عمر، اور عثمان ؓ کا رہا۔
Top