Tafseer-e-Usmani - Ar-Ra'd : 41
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم چلے آتے ہیں زمین کو گھٹاتے اس کے کناروں سے6  اور اللہ حکم کرتا ہے کوئی نہیں کہ پیچھے ڈالے اس کا حکم7 اور وہ جلد لیتا ہے حساب8
6  یعنی سرزمین مکہ کے آس پاس اسلام کا اثر پھیلتا جاتا اور کفر کی عملداری گھٹتی جاتی ہے۔ بڑے بڑے قبائل اور اشخاص کے قلوب پر اسلام کا سکہ بیٹھ رہا ہے۔ اوس و خزرج کے دل حق و صداقت کے سامنے مفتوح ہو رہے ہیں۔ اس طرح ہم آہستہ آہستہ کفر کی حکومت کو دباتے چلے آرہے ہیں۔ کیا یہ روشن آثار ان مکذبین کو نہیں بتلاتے کہ خدا کا فیصلہ ان کے مستقبل کے متعلق کیا ہوچکا ہے۔ ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اسلام آج جس رفتار سے بڑھ رہا ہے وہ کسی طاقت سے رکنے والا نہیں۔ لہذا انجام بینی اسی میں ہے کہ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھیں۔ 7 یعنی اس کا تکوینی حکم اور فیصلہ اٹل ہے۔ جب وقت آجائے تو کس کی طاقت ہے کہ ایک منٹ کے لیے ملتوی کر کے پیچھے ڈال دے۔ 8 یعنی جہاں حساب کا وقت آن پہنچا پھر دیر نہ لگے گی۔ یا جو چیز یقینا آنے والی ہے اسے جلد ہی سمجھو۔
Top