Tafseer-e-Usmani - Ibrahim : 26
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ اِ۟جْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ
وَمَثَلُ : اور مثال كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ : ناپاک بات كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ : مانند درخت ناپاک اجْتُثَّتْ : اکھاڑ دیا گیا مِنْ : سے فَوْقِ : اوپر الْاَرْضِ : زمین مَا لَهَا : نہیں اس کے لیے مِنْ قَرَارٍ : کچھ بھی قرار
اور مثال گندی بات کی1 جیسے درخت گندا2 اکھاڑ لیا اس کو زمین کے اوپر سے کچھ نہیں اس کو ٹھہراؤ3
1 کلمہ کفر، جھوٹی بات اور ہر ایک کلام جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو " کلمہ خبیثہ " میں داخل ہے۔ 2 اکثر نے اس سے حنظل (اندرائن) مراد لیا ہے گو عموم لفظ میں ہر خراب درخت شامل ہوسکتا ہے۔ 3 یعنی جڑ کچھ نہ ہو، ذرا اشارہ سے اکھڑ جائے۔ گویا اس کے بودے پن اور ناپائیداری کو ظاہر فرمایا، دونوں مثالوں کا حاصل یہ ہوا کہ مسلمانوں کا دعوائے توحید و ایمان پکا اور سچا ہے جس کے دلائل نہایت صاف و صحیح اور مضبوط ہیں، موافق فطرت ہونے کی وجہ سے اس کی جڑیں قلوب کی پہنائیوں میں اتر جاتی ہیں اور اعمال صالحہ کی شاخیں آسمان قبول سے جا لگتی ہیں۔ (ۭاِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ ) 35 ۔ فاطر :10) اس کے لطیف و شیریں ثمرات سے موحدین کے کام و دہن ہمیشہ لذت اندوز ہوتے ہیں۔ الغرض حق و صداقت اور توحید و معرفت کا سدا بہار درخت روز بروز پھولتا پھلتا اور بڑی پائیداری کے ساتھ اونچا ہوتا رہتا ہے اس کے برخلاف جھوٹی بات اور شرک و کفر کے دعوائے باطل کی جڑ بنیاد کچھ نہیں ہوتی۔ ہوا کے ایک جھٹکے میں اکھڑ کر جا پڑتا ہے۔ ناحق بات ثابت کرنے میں خواہ کتنے ہی زور لگائے جائیں، لیکن انسانی ضمیر اور فطرت کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس کی جڑیں دل کی گہرائی میں نہیں پہنچتیں۔ تھوڑا دھیان کرنے سے غلط معلوم ہونے لگتی ہے۔ اسی لیے مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی سچ کی طرح اپنے پاؤں نہیں چلتا۔ نہ اس سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ امام فخر الدین رازی نے صوفیاء کے طرز پر ان مثالوں کے بیان میں بہت اطناب سے کام لیا ہے۔ یہاں اس کے نقل کی گنجائش نہیں۔
Top