Tafseer-e-Usmani - Ibrahim : 34
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ١ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠   ۧ
وَاٰتٰىكُمْ : اور اس نے تمہیں دی مِّنْ : سے كُلِّ : ہر چیز مَا : جو سَاَلْتُمُوْهُ : تم نے اس سے مانگی وَاِنْ : اور اگر تَعُدُّوْا : گننے لگو تم نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ لَا تُحْصُوْهَا : اسے شمار میں نہ لا سکو گے اِنَّ : بیشک الْاِنْسَانَ : انسان لَظَلُوْمٌ : بیشک بڑا ظالم كَفَّارٌ : ناشکرا
اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی3 اور اگر گنو احسان اللہ کے نہ پورے کرسکو4 بیشک آدمی بڑا بےانصاف ہے ناشکرا5
3 یعنی جو چیزیں تم نے زبان قال یا حال سے طلب کیں، ان میں ہر چیز کا جس قدر حصہ حکمت و مصلحت کے موافق تھا مجموعی طور پر تم سب کو دیا۔ 4 یعنی خدا کی نعمتیں اتنی بیشمار بلکہ غیر متناہی ہیں کہ اگر تم سب مل کر اجمالاً ہی گنتی شروع کرو تو تھک کر اور عاجز ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اس موقع پر امام رازی نے نعمائے الٰہیہ کا بیشمار ہونا، اور علامہ ابو السعود نے ان کا غیر متناہی ہونا ذرا بسط سے بیان فرمایا ہے اور صاحب روح المعانی نے ان کے بیانات پر مفید اضافہ کیا۔ یہاں اس قدر تطویل کی گنجائش نہیں۔ 5 یعنی جنس انسان میں بہتیرے بےانصاف اور ناسپاس ہیں، جو اتنے بیشمار احسانات دیکھ کر بھی منعم حقیقی کا حق نہیں پہچانتے۔
Top