Tafseer-e-Usmani - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور ہرگز مت خیال کر کہ اللہ بیخبر ہے ان کاموں سے جو کرتے ہیں بےانصاف6  ان کو تو ڈھیل دے کبھی ہے اس دن کے لیے کہ پتھرا جائیں گی آنکھیں7
6  ایک رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا۔ (اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ) 14 ۔ ابراہیم :34) (انسان بڑا ظالم اور ناشکر گزار ہے) بعدہ ' حضرت ابراہیم کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی طرف اشارہ کیا۔ اس رکوع میں متنبہ فرماتے ہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان کی حرکات سے بیخبر ہے، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فوراً پکڑ کر تباہ کر دے۔ وہ بڑے بڑے ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آجائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد تک پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خفا باقی نہ رہے۔ (تنبیہ) " لَا تَحْسَبَنَّ " کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گزر سکتا ہو۔ اور اگر حضور ﷺ کو خطاب ہے تو آپ ﷺ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہوگا کہ جب حضور ﷺ کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا خیال آپ ﷺ کے قریب بھی نہ آسکتا تھا تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر واجب الاحتراز ہونا چاہیے۔ 7 یعنی قیامت کے دن ہول اور دہشت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
Top