Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
کسی وقت آرزو کریں گے یہ لوگ جو منکر ہیں کیا اچھا ہوتا جو ہوتے مسلمان1
1 یعنی آج منکرین نے قرآن و اسلام جیسی عظیم الشان نعمت الٰہیہ کی قدر نہیں کی لیکن ایسا وقت آنے والا ہے جب یہ لوگ اپنی محرومی پر ماتم کریں گے اور دست حسرت مل کر کہیں گے کاش ہم مسلمان ہوتے ! وہ وقت کب آئے گا ؟ اس میں اختلاف ہوا ہے ہم ابن الانباری کے قول کے موافق اس کو عام رکھتے ہیں۔ یعنی دنیا و آخرت میں جو مواقع کافروں کی نامرادی اور مسلمانوں کی کامیابی کے پیش آتے رہیں گے ہر موقع پر کفار کو رو رو کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا اور نعمت اسلام سے محروم رہ جانے کی حسرت ہوگی۔ اس سلسلہ میں پہلا موقع تو جنگ بدر کا تھا جہاں کفار مکہ نے مسلمانوں کی طرف کھلا ہوا غلبہ اور تائید غیبی دیکھ کر اپنے دلوں میں محسوس کیا کہ جس اسلام نے فقراء مہاجرین اور اوس و خزرج کے کاشتکاروں کو اونچی ناک والے قریشی سرداروں پر غالب کیا، افسوس ہم اس دولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح اسلامی فتوحات و ترقیات کی ہر ایک منزل پر کفار کو اپنی تہی دستی و حرمان پر پچھتانے اور دل سے اشک حسرت بہانے کا موقع ملتا رہا۔ انتہائی حسرت و افسوس کا مقام وہ ہوگا جب فرشتہ جان نکالنے کے لیے سامنے کھڑا ہے اور عالم غیب کے حقائق آنکھوں سے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت ہاتھ کاٹیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے اسلام قبول کرلیا ہوتا کہ آج عذاب بعدالموت سے محفوظ رہ سکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یاس انگیز نظارہ وہ ہوگا جو طبرانی کی حدیث میں ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے بہت سے آدمی اپنے گناہوں کی بدولت جہنم میں جائیں گے اور جب تک خدا چاہے گا وہاں رہیں گے۔ بعدہ ' مشرکین ان پر طعن کریں گے کہ تمہارے ایمان و توحید نے تم کو کیا فائدہ دیا ؟ تم بھی آج تک ہماری طرح دوزخ میں ہو، اس پر حق تعالیٰ کسی موحد کو جہنم میں نہ چھوڑے گا۔ یہ فرما کر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت پڑھی (رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ) 15 ۔ الحجر :2) گویا یہ آخری موقع ہوگا جب کفار اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔
Top