Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ
وَ : اور لَقَدْ نَعْلَمُ : ہم خوب جانتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُعَلِّمُهٗ : اس کو سکھاتا ہے بَشَرٌ : ایک آدمی لِسَانُ : زبان الَّذِيْ : وہ جو کہ يُلْحِدُوْنَ : کجراہی (نسبت) کرتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَعْجَمِيٌّ : عجمی وَّھٰذَا : اور یہ لِسَانٌ : زبان عَرَبِيٌّ : عربی مُّبِيْنٌ : واضح
اور ہم کو خوب معلوم ہے کہ وہ کہتے ہیں اس کو تو سکھلاتا ہے ایک آدمی3 جس کی طرف تعریض کرتے ہیں اس کی زبان ہے عجمی اور یہ قرآن زبان عربی ہے صاف4
3 مشرکین کا اعترض یہ تھا کہ قرآن شریف نہ خدا کا کلام ہے، ورنہ نسخ اس میں نہ ہوتا اور نہ یہ آپ کا کلام ہوسکتا ہے۔ کیونکہ آپ کا امی ہونا سب کو معلوم و مسلم تھا۔ ایک امی جس نے نہ کبھی کوئی کتاب چھوئی ہو نہ قلم ہاتھ میں پکڑا ہو، بلکہ باوجود اعلیٰ درجہ کے قریشی ہونے کے چالیس برس تک ایک شعر بھی زبان سے نہ کہا ہو، جس میں عرب کی چھوکریاں تک فطری سلیقہ اور ملکہ رکھتی تھیں۔ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ بدون تعلیم و تعلم کے دفعتاً ایسی کتاب بنا لائے جو اس قدر عجیب و غریب، علوم و حکم، موثر ہدایات اور کایا پلٹ کردینے والے قوانین و احکام پر مشتمل ہو۔ ناگزیر کہنا پڑے گا کہ کوئی دوسرا شخص انھیں یہ باتیں سکھلاتا اور ایسا کلام بنا کر دے دیتا ہے۔ وہ شخص کون تھا جس کی بےاندازہ قابلیت سے قرآن جیسی کتاب تیار ہوئی اس کے نام میں اختلاف تھا جبر یسار عائش لعیش کئی عجمی غلاموں کے نام لیے گئے ہیں جن میں کوئی یہودی تھا کوئی نصرانی۔ بلکہ بعض کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ نصرانیت چھوڑ کر مذہب اسلام قبول کرچکے تھے۔ کہتے ہیں حضور گاہ بگاہ آتے جاتے ان میں سے کسی ایک کے پاس بیٹھتے تھے یا وہ حضور ﷺ کی خدمت میں کبھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ مگر تعجب ہے اتنے بڑے قابل انسانوں کا تو نام بھی تاریخ نے پورے تیقن و تعین کے ساتھ یاد نہ رکھا۔ اور جو ان سے سیکھ کر محض نقل کردیا کرتے تھے، دنیا ان کے قدموں پر گر پڑی ہے۔ حتیٰ کہ جنہوں نے ان کو نبی نہ مانا، دنیا کا سب سے بڑا مصلح اور کامل انسان ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ بہرحال مشرکین کے اس سفیہانہ اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ دعوائے بعثت سے پہلے آپ کا امی ہونا ان کے نزدیک ایسا مسلم تھا کہ قرآنی علوم و معارف کو آپ کی امیت مسلمہ سے تطبیق نہ دے سکتے تھے۔ اسی لیے کہنا پڑتا تھا کہ کوئی دوسرا شخص آپ کو یہ باتیں سکھلا جاتا ہے۔ بلاشبہ آپ سکھلائے ہوئے تھے، لیکن سکھلانے والا کوئی بشر نہ تھا۔ وہ رب قدیر تھا جس نے فرمایا " اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن " 4 یعنی اگر قرآن کے علوم خارقہ اور دوسری وجوہ اعجاز کو اپنی غباوت کی وجہ سے تم نہیں سمجھ سکتے تو اس کی زبان کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا ادراک تو کرسکتے ہو۔ جس کے متعلق بار بار چیلنج دیا جاچکا اور اعلان کیا جا چکا ہے کہ تمام جن و انس مل کر بھی اس کلام کا مثل پیش نہ کرسکیں گے۔ پھر جس کا مثل لانے سے عرب کے تمام فصحاء و بلغاء بلا استثناء احدے عاجز و درماندہ ہوں ایک گمنام عجمی بازاری غلام سے کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ ایسا کلام معجز تیار کر کے پیش کر دے۔ اگر تمام عرب میں کوئی شخص بالفرض ایسا کلام بنا سکتا تو وہ خود حضرت محمد ﷺ ہوتے۔ مگر قرآن کے سوا آپ کے دوسرے کلام کا ذخیرہ قرآن کے بیان کردہ موضوعات پر موجود ہے، جو باوجود انتہائی فصاحت کے کسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت قرآنی کی ہمسری نہیں کرسکتا۔
Top