Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 27
ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ وَ یَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَ السُّوْٓءَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
ثُمَّ : پھر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن يُخْزِيْهِمْ : وہ انہیں رسوا کرے گا وَيَقُوْلُ : اور کہے گا اَيْنَ : کہاں شُرَكَآءِيَ : میرے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنْتُمْ : تم تھے تُشَآقُّوْنَ : جھگڑتے فِيْهِمْ : ان (کے بارہ) میں قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْعِلْمَ : دئیے گئے علم (علم والے) اِنَّ : بیشک الْخِزْيَ : رسوائی الْيَوْمَ : آج وَالسُّوْٓءَ : برائی عَلٰي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر قیامت کے دن رسوا کرے گا ان کو اور کہے گا کہاں ہیں میرے شریک جن پر تم کو بڑی ضد تھی1 بولیں گے جن کو دی گئی تھی خبر بیشک رسوائی آج کے دن اور برائی منکروں پر ہے2
1 یعنی جن شرکاء کی حمایت میں ہمارے پیغمبروں سے ہمیشہ لڑتے جھگڑتے تھے آج وہ کہاں ہیں۔ تمہاری مدد کو کیوں نہیں آتے (هَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ ) 26 ۔ الشعرآء :93) (فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ ) 86 ۔ الطارق :10) یہ کہنا ہی ان کو رسوا کرنا ہے۔ یا رسوائی سے مراد جہنم میں داخل کرنا اور ان کی خفیہ مکاریوں کا پردہ فاش کرنا ہے۔ " (اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهٗ ) 3 ۔ آل عمران :192) 2 یعنی وہ تو کیا جواب دے سکتے۔ البتہ انبیاء (علیہم السلام) اور دوسرے باخبر لوگ اس وقت ان مکار دغابازوں کو سنا کر کہیں گے کہ دیکھ لیا جو ہم کہا کرتے تھے۔ آج کے دن ساری برائی اور رسوائی صرف منکرین حق کے لیے ہے۔
Top