Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
اتارتا ہے فرشتوں کو1 بھید دے کر2 اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں3 کہ خبردار کردو کہ کسی کی بندگی نہیں سوا میرے سو مجھ سے ڈرو4
1 یعنی فرشتوں کی جنس میں سے بعض کو جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یا حفظۃ الوحی، جن کی طرف " ( فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا) 72 ۔ الجن :27) میں اشارہ کیا ہے۔ 2 یہاں ' روح " سے مراد وحی الٰہی ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کی طرف غیر مرئی طریق پر بطور ایک بھید کے آتی ہے۔ چناچہ دوسری جگہ فرمایا (يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ) 40 ۔ غافر :15) ایک جگہ قرآن کی نسبت فرمایا (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا) 42 ۔ الشوری :52) قرآن یا وحی الٰہی کو " روح " سے تعبیر فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح مادی اجسام کو نفخ روح سے ظاہری حیات حاصل ہوتی ہے، اسی طرح جو قلوب جہل و ضلال کی بیماریوں سے مردہ ہوچکے تھے وہ وحی الٰہی کی روح پا کر زندہ ہوجاتے ہیں۔ 3 وہ بندے انبیاء (علیہ السلام) ہیں جن کو خدا تعالیٰ ساری مخلوق میں سے اپنی حکمت کے موافق اپنے کامل اختیار سے چن لیتا ہے۔ ( ۂاَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الانعام :124) (اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ) 22 ۔ الحجر :75) 4 یعنی توحید کی تعلیم، شرک کا رد اور تقویٰ کی طرف دعوت، یہ ہمیشہ سے تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مشترکہ و متفقہ نصب العین (مشن) رہا ہے۔ گویا اثبات توحید کی یہ نقلی دلیل ہوئی۔ آگے عقلی دلیلیں بیان کی جاتی ہیں۔
Top