Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 35
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ عَبَدْنَا : ہم پرستش کرتے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوائے مِنْ شَيْءٍ : کوئی۔ کسی شے نَّحْنُ : ہم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا حَرَّمْنَا : اور نہ حرام ٹھہراتے ہم مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے (حکم کے) سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی شے كَذٰلِكَ : اسی طرح فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَهَلْ : پس کیا عَلَي : پر (ذمے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
اور بولے شرک کرنے والے اگر چاہتا اللہ نہ پوجتے ہم اس کے سوا کسی چیز کو اور نہ ہمارے باپ اور نہ حرام ٹھہرا لیتے ہم بدون اس کے حکم کے کسی چیز کو3 اسی طرح کیا ان سے اگلوں نے سو رسولوں کے ذمہ نہیں مگر پہنچا دینا صاف صاف4
3 یہاں سے ان باطل اعذار اور لچر پوچ دلائل کا رد شروع کرتے ہیں جو مشرکین اپنے شرک اور اعمال شرکیہ کا جواز و استحسان ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر غیر اللہ کی پرستش یا بعض جانوروں (مثلاً بحیرہ سائبہ وغیرہ) کو حرام ٹھہرا لینا برے اور بےسند کام ہوتے جنہیں خدا پسند نہ کرتا تو ہم کو کرنے کیوں دیتا۔ ضرور تھا کہ جب ہم اس کی مرضی کے خلاف کام کریں تو اس سے روک دے نہ رکیں تو فوراً سزا دے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ دلیل ہے کہ خدا کو وہ کام ناپسند نہیں۔ آٹھویں پارہ کے دوسرے ربع آیت (سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ) 6 ۔ الانعام :148) کی جو تقریر ہم نے کی ہے اس میں مشرکین کا یہ شبہ اور اس کا مفصل جواب بیان کیا گیا ہے۔ وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ 4 یعنی مشرکین کا یہ کہنا غلط ہے کہ خدا کی طرف سے روکا نہیں گیا ابتدائے آفرینش سے آج تک حسب ضرورت مصلحت حق تعالیٰ انبیاء کو بھیجتا رہا ہے جن کا کام ہی یہ تھا کہ لوگوں کو شرک و اعمال شرکیہ سے روکیں۔ اور صاف صاف اعلان کریں کہ خدا تعالیٰ کو کیا کام پسند ہیں کیا ناپسند، اور ان میں سے ہر ایک کا انجام کیا ہے۔ باقی یہ کہ لوگوں کو تکوینی طور پر مجبور کیوں نہ کردیا گیا کہ وہ بدی کا راستہ اختیار ہی نہ کرسکتے تو یہ بات اس کی حکمت کے منافی تھی جیسا کہ ہم پہلے متعدد مواضع میں لکھ چکے ہیں۔ رہی یہ چیز کہ جو انبیاء کا کہنا نہ مانیں انھیں فوراً سزا دی جاتی تو بہت سی قوموں کو دنیا میں عبرتناک سزائیں بھی دی گئیں۔ جیسا کہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ہاں عقلاً و نقلاً یہ ضروری نہیں کہ ارتکاب جرم کے ساتھ انھیں فوراً سزا دی جائے۔ مجرم کو ایک منٹ کی مہلت نہ ملے نہ اس کے لیے توبہ و اصلاح کا کوئی موقع باقی چھوڑا جائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ اللہ کو یہ کام برا لگتا تو کیوں کرنے دیتا۔ " (کیا ان کے روکنے سے خدا عاجز تھا ؟ ) یہاں جواب مجمل فرمایا کہ ہمیشہ رسول منع کرتے آئے ہیں، جس کی قسمت میں ہدایت تھی اس نے پائی، جو خراب ہونا تھا خراب ہوا۔ اللہ کو یہ ہی منظور ہے (کہ انسان کو فی الجملہ کسب و اختیار کی قوت دے کر آزاد رکھے۔ اینٹ پتھر کی طرح مجبور یا حیوانات کی طرح اس کا دائرہ عمل محدود نہ کرے بلکہ ہر طرف بڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع دے) ۔
Top