Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 47
اَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ١ؕ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
اَوْ : یا يَاْخُذَهُمْ : انہیں پکڑ لے وہ عَلٰي : پر (بعد) تَخَوُّفٍ : ڈرانا فَاِنَّ : پس بیشک رَبَّكُمْ : تمہارا رب لَرَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت رحم کرنے والا
یا پکڑ لے ان کو ڈرانے کے بعد2 سو تمہارا رب بڑا نرم ہے مہربان3
2 یعنی اچانک نہ پکڑے۔ بلکہ آگاہ کرنے اور مبادئ عذاب بھیجنے کے بعد ایسی حالت میں پکڑ لے جب کہ لوگ اطلاع پا کر اور آثار عذاب دیکھ کر طبعاً خوف کھا رہے ہوں یا آس پاس کے لوگوں کو آفات سماویہ میں مبتلا دیکھ کر ڈر رہے ہوں لیکن یہ خوف محض طبعی ہو۔ ندامت اور توبہ کے ساتھ نہ ہو جو دافع عذاب ہوسکتا ہے۔ بعض نے " تخوف " کے معنی " تنقص " (آہستہ آہستہ کم کرنے) کے لیے ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ دفعتاً ہلاک نہ کرے آہستہ آہستہ تم کو گھٹائے اور پست کرتا رہے۔ 3 یعنی خدا سب کچھ کرسکتا ہے مگر کیوں نہیں کرتا، اس کی نرمی اور مہربانی مانع ہے کہ مجرمین پر فوراً عذاب نازل کر دے، اس کی رافت و رحمت مقتضی ہے کہ مجرمین کو مہلت اور اصلاح کا مواقع دیا جائے یا یہ جملہ صرف " یَاْخُذَہُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ " سے متعلق ہے بحالیکہ " تخوف " کو بمعنی " تنقص " لیا جائے، تو مطلب یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ کم کرنا اور دفعۃً ہلاک نہ کرنا اس کی رحمت و شفقت کی وجہ سے ہے، ورنہ ایک آن میں نیست و نابود کردیتا۔
Top