Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور اللہ تک پہنچتی ہے سیدھی راہ اور بعضی راہ کج بھی ہے12 اور اگر وہ چاہے تو سیدھی راہ دے تم سب کو13
12 پہلے ذکر فرمایا تھا کہ تم حیونات کی پیٹھ پر سوار ہوتے ہو اور وہ تم کو مع سامان و اسباب کے سخت اور کھٹن منزلیں طے کرا کر منزل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بدنی اور حسی سیر و سفر کا حال ہوا۔ اسی کی مناسبت سے اب روحانی اور معنوی سیرو سیاحت کی طرف کلام منتقل ہوگیا۔ یعنی جس طرح زمینی راستے طے کر کے منزل مقصود تک پہنچتے ہو، ایسے ہی خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ بھی کھلا ہوا ہے۔ جس کی سمجھ سیدھی ہوگی۔ وہ مذکورہ بالا دلائل و بصائر میں غور کرکے حق تعالیٰ کی قدرت اور عظمت و جبروت پر ایمان لائے گا اور توحید وتقویٰ کی سیدھی راہ چل کر بےکھٹکے خدا تک پہنچ جائے گا۔ لیکن جس کی عقل سیدھی نہیں، اسے سیدھی سڑک پر چلنے کی توفیق کہاں ہوسکتی ہے وہ ہمیشہ اہواء و اوہام کی پیچدار پگڈنڈیوں میں پڑا بھٹکتا رہے گا۔ (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ) 6 ۔ الانعام :153) 13 یعنی خدا کچھ اس بات سے عاجز نہیں تھا کہ ساری دنیا کو ایک ہی راہ پر لگا دیتا۔ لیکن اس کی حکمت مقتضی نہیں ہوئی کہ سب کو ایک ہی ڈھنگ اختیار کرنے پر مجبور کردے۔ جیسا کہ ہم پہلے متعدد مواقع میں اس کی تشریح کرچکے ہیں۔
Top