Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
اور جو لڑکا تھا سو اس کے ماں باپ تھے ایمان والے پھر ہم کو اندیشہ ہوا کہ ان کو عاجز کر دے زبر دستی اور کفر کر کر8
8 گو اصل فطرت سے ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے مگر آگے چل کر خارجی اثرات سے بچپن ہی میں بعض کی بنیاد بری پڑجاتی ہے جس کا پورا یقینی علم تو خدا تعالیٰ کو ہوتا ہے تاہم کچھ آثار اہل بصیرت کو بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس لڑکے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو آگاہ فرما دیا کہ اس کی بنیاد بری پڑی تھی۔ بڑا ہوتا تو موذی اور بدراہ ہوتا اور ماں باپ کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا۔ وہ اس کی محبت میں کافر بن جاتے، اس طرح لڑکے کا مارا جانا والدین کے حق میں رحمت اور ان کی حفاظت کا ذریعہ بن گیا۔ خدا کو منظور تھا کہ اس کے ماں باپ ایمان پر قائم رہیں، حکمت الٰہیہ ہوئی کہ آنے والی رکاوٹ ان کی راہ سے دور کردی جائے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ لڑکے کو قتل کردو۔ انہوں نے خدا کی وحی پا کر امتثال امر کیا۔ اب یہ سوال کرنا کہ لڑکے کو پیدا ہی نہ کرتے یا کرتے تو اس کو اس قدر شریر نہ ہونے دیتے یا جہاں لاکھوں کافر دنیا میں موجود ہیں اس کے والدین کو بھی کافر بن جانے دیتے یا جن بچوں کی بنیاد ایسی پڑے کم ازکم پیغمبروں کو ان سب کی فہرست دے کر قتل کرا دیا کرتے۔ ان باتوں کا اجمالی جواب تو یہ ہے (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :23) اور تفصیلی جواب کے لیے مسئلہ " خلق خیر وشر " پر مبسوط کلام کرنے کی ضرورت ہے جو ان مختصر فوائد میں سما نہیں سکتا۔ ہاں اتنا یاد رہے کہ دنیا میں ہر شخص سے جو اللہ کو " خالق الکل " اور " علیم " و " خبیر " مانتا ہو۔ تکوینیات کے متعلق اسی قسم کے ہزاروں سوالات کیے جاسکتے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس بجز اعتراف عجزو قصور کے کچھ نہیں۔ یہاں خضر کے ذریعہ سے اسی کا ایک نمونہ دکھلانا تھا کہ خدا تعالیٰ کی حکمتوں اور مصالح تکوینیہ کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ کبھی صورت واقعہ بظاہر دیکھنے میں خراب اور قبیح یا بےموقع معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جسے واقعہ کی اندرونی گہرائیوں کا علم ہو وہ سمجھتا ہے کہ اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے مسکینوں کی کشتی کا تختہ توڑ دیا، حالانکہ انہوں نے احسان کیا تھا کہ بلا اجرت دونوں کو سوار کرلیا۔ ایک کھیلتے ہوئے بچہ کو مار ڈالا جو بظاہر نہایت قبیح حرکت نظر آتی تھی۔ دیوار سیدھی کر کے اس بستی والوں پر احسان کیا جو نہایت بےمروتی سے پیش آئے تھے۔ اگر حضرت خضر (علیہ السلام) آخر میں اپنے ان افعال کی توجیہات بیان نہ کرتے تو ساری دنیا آج تک ورطہ حیرت میں پڑی رہتی، یا خضر (علیہ السلام) کو ہدف طعن وتشنیع بنائے رکھتی۔ (العیاذ باللہ) ان ہی مثالوں سے حق تعالیٰ کے افعال اور ان کی حکمتوں کا اندازہ کرلو۔
Top