Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 84
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ
اِنَّا مَكَّنَّا : بیشک ہم نے قدرت دی لَهٗ : اس کو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دیا مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے سَبَبًا : سامان
ہم نے اس کو جمایا تھا ملک میں اور دیا تھا ہم نے اس کو ہر چیز کا سامان3
3 اس بادشاہ کو " ذوالقرنین " اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) پر پھر گیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لقب اسکندر رومی کا ہے اور بعض کے نزدیک کوئی مقبول خدا پرست اور دیندار بادشاہ اس سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں متعدد وجوہ دلائل سے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ مجموعہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالقرنین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معاصر تھا اور ان کی دعا کی برکت سے حق تعالیٰ نے خارق عادت سامان و وسائل عطا فرمائے تھے۔ جن کے ذریعہ سے اس کو مشرق و مغرب کے سفر اور محیر العقول فتوحات پر قدرت حاصل ہوئی۔ حضرت خضر (علیہ السلام) اس کے وزیر تھے، شاید اسی لیے قرآن نے حضرت خضر (علیہ السلام) کے قصہ کے ساتھ اس کا قصہ بیان فرمایا۔ قدیم شعرائے عرب نے اپنے اشعار میں " ذوالقرنین " کا نام بڑی عظمت سے لیا ہے اور اس کے عرب ہونے پر فخر کرتے رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالقرنین عہد تاریخی سے پہلے کا کوئی جلیل القدر عرب بادشاہ ہے۔ شاید اسکندر کو بھی اسی کی ایک گونہ مشابہت سے ذوالقرنین کہنے لگے ہوں۔ حال میں یورپ کے ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم سامی عربوں کی متعدد عظیم الشان سلطنتوں کا سراغ لگایا ہے جن کا تاریخی اوراق میں کوئی مفصل تذکرہ موجود نہیں، بلکہ بعض ممتاز و مشہور سلاطین کا نام تک کتب تاریخ میں نہیں ملتا۔ مثلاً بادشاہ ' حمورابی " جو اغلبًا حضرت ابراہیم کے عہد میں ہوا ہے اور جس کو کہا گیا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا مقنّن تھا۔ اس کے قوانین منارہ بابل پر کندہ ملے ہیں۔ جن کا ترجمہ انگریزی میں شائع ہوگیا ہے۔ پرانے کتبات سے اس کی عجیب و غریب عظمت ثابت ہوتی ہے۔ بہرحال " ذوالقرنین ' ان ہی میں کا کوئی بادشاہ ہوگا۔
Top