Tafseer-e-Usmani - Maryam : 32
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ١٘ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا
وَّبَرًّۢا : اور اچھا سلوک کرنیوالا بِوَالِدَتِيْ : اپنی ماں سے وَ : اور لَمْ يَجْعَلْنِيْ : اس نے مجھے نہیں بنایا جَبَّارًا : سرکش شَقِيًّا : بدنصیب
اور سلوک کرنے والا اپنی ماں سے3 اور نہیں بنایا مجھ کو زبردست بدبخت4
3 چونکہ باپ کوئی نہ تھا اس لیے صرف ماں کا نام لیا۔ 4 یہ سب جملے جو بصیغہ ماضی لائے گئے بیشک اس کے معنی ماضی ہی کے لیے جائیں گے۔ لیکن اس طرح کہ مستقبل متقین الوقوع کو گویا ماضی فرض کرلیا گیا۔ جیسے " اتی اَمْرُاللّٰہ فَلَا تَسْتَعْجِلُوہ " میں۔ اس طرح مسیح (علیہ السلام) نے بچپن میں ماضی کے صیغے استعمال کر کے متنبہ کردیا کہ ان سب چیزوں کا آئندہ پایا جانا ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ اسے یہ ہی سمجھنا چاہیے کہ گویا پائی جا چکی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اس خارق عادت گفتگو سے اور ان اوصاف و خصال سے جو بیان کیے نہایت بلاغت کے ساتھ اس ناپاک تہمت کا رد ہوگیا جو ان کی والدہ ماجدہ پر لگائی جاتی تھی۔ اول تو ایک بچہ کا بولنا، اور ایسا جامع و موثر کلام طبعًا دشمنوں کو خاموش کرنے والا تھا پھر جس ہستی میں ایسی پاکیزہ خصال پائی جائیں، ظاہر ہے۔ وہ العیاذ باللہ ولدالزنا کیسے ہوسکتی ہے جیسا کہ خود ان کے اقرار (مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا) 19 ۔ مریم :28) سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فروع کو اصول کے موافق دیکھنا چاہتے تھے۔
Top