Tafseer-e-Usmani - Maryam : 75
قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا١ۚ۬ حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ١ؕ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا
قُلْ : کہہ دیجئے مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الضَّلٰلَةِ : گمراہی میں فَلْيَمْدُدْ : تو ڈھیل دے رہا ہے لَهُ : اس کو الرَّحْمٰنُ : اللہ مَدًّا : خوب ڈھیل حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب رَاَوْا : وہ دیکھیں گے مَا يُوْعَدُوْنَ : جس کا وعدہ کیا جاتا ہے اِمَّا : خواہ الْعَذَابَ : عذاب وَاِمَّا : اور خواہ السَّاعَةَ : قیامت فَسَيَعْلَمُوْنَ : پس اب وہ جان لیں گے مَنْ : کون هُوَ : وہ شَرٌّ مَّكَانًا : بدتر مقام وَّاَضْعَفُ : اور کمزور تر جُنْدًا : لشکر
تو کہہ جو رہا بھٹکتا سو چاہیے اس کو کھینچ لے جائے رحمان لمبا6  یہاں تک کہ جب دیکھیں گے جو وعدہ ہوا تھا ان سے یا آفت اور یا قیامت سو تب معلوم کرلیں گے کس کا برا ہے مکان اور کس کی فوج کمزور ہے7
6  یعنی جو خود گمراہی میں جا پڑا اسے گمراہی میں جانے دے۔ کیونکہ دنیا جانچنے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر ایک کو عمل کی فی الجملہ آزادی دی گئی ہے، خدا تعالیٰ کی عادت اور حکمت کا اقتضاء یہ ہے کہ جو اپنے کسب و ارادہ سے کوئی راستہ اختیار کرلے اس کو نیک و بد سے خبردار کردینے کے بعد اسی راستہ پر چلنے کے لیے ایک حد تک آزاد چھوڑ دے۔ اسی لیے جو بدی کی راہ چل پڑا اس کے حق میں دنیا کی مرفّہ الحالی اور درازئی عمر وغیرہ تباہی کا پیش خیمہ سمجھنا چاہیے۔ نیک و بد یہاں رلے ملے ہیں آخرت میں پوری طرح جدا ہوں گے۔ اصلی بھلائی برائی وہاں ملے گی۔ 7 یعنی کفار مسلمانوں کو ذلیل و کمزور اور اپنے کو معزز و طاقتور سمجھتے ہیں۔ اپنے عالیشان محلات اور بڑی بڑی فوجوں اور جتھوں پر اتراتے ہیں۔ کیونکہ خدا نے ابھی ان کی باگ ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے جس وقت گلا دبایا جائے گا خواہ دنیاوی عذاب کی صورت میں یا قیامت کے بعد، تب پتہ لگے گا کہ کس کا مکان برا ہے اور کس کی جمعیت کمزور ہے۔ اس موقع پر تمہارے سامان اور لشکر کچھ کام نہ آئیں گے۔
Top