Tafseer-e-Usmani - Al-Baqara : 144
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ١ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا١۪ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ
قَدْ نَرٰى : ہم دیکھتے ہیں تَقَلُّبَ : بار بار پھرنا وَجْهِكَ : آپ کا منہ في : میں (طرف) السَّمَآءِ : آسمان فَلَنُوَلِّيَنَّكَ : تو ضرور ہم پھیردینگے آپ کو قِبْلَةً : قبلہ تَرْضٰىھَا : اسے آپ پنسد کرتے ہیں فَوَلِّ : پس آپ پھیر لیں وَجْهَكَ : اپنا منہ شَطْرَ : طرف الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام (خانہ کعبہ) وَحَيْثُ مَا : اور جہاں کہیں كُنْتُمْ : تم ہو فَوَلُّوْا : سو پھیرلیا کرو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ شَطْرَهٗ : اسی طرف وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ : جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب لَيَعْلَمُوْنَ : وہ ضرور جانتے ہیں اَنَّهُ : کہ یہ الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
بیشک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف، سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہو7 اب پھیر منہ اپنا طرف مسجد الحرام کے8 اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منہ اسی طرف9 اور جن کو ملی ہے کتاب البتہ جانتے ہیں کہ یہ ہی ٹھیک ہے ان کے رب کی طرف سے اور اللہ بیخبر نہیں ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں10
7  چونکہ آپ کا اصلی قبلہ اور آپ کے کمالات کے مناسب خانہ کعبہ تھا اور سب قبلوں سے افضل اور حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی قبلہ وہی تھا ادھر یہود طعن کرتے تھے کہ یہ نبی شریعت میں ہمارے مخالف اور ملت ابراہیمی کے موافق ہو کر ہمارا قبلہ کیوں اختیار کرتے ہیں ان وجوہ سے جس زمانہ میں آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو دل یہی چاہتا تھا کہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آجائے اور اس شوق میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر ہر طرف کو دیکھتے تھے کہ شاید فرشتہ حکم لاتا ہو اس پر یہ آیت اتری اور استقبال کعبہ کا حکم آگیا۔ 8  یعنی کعبہ کی طرف اور اسکو مسجد الحرام اس لئے کہتے ہیں کہ وہاں مقاتلہ کرنا اور شکار کرنا جانوروں کا اور درخت اور گھاس کا کاٹنا وغیرہ امور حرام ہیں اور کسی مسجد کی اتنی حرمت و عزت نہیں جس قدر مسجد الحرام کی حرمت ہے جب تحویل قبلہ کا یہ حکم نازل ہوا تو آپ باجماعت مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے دو رکعت بیت المقدس کی طرف پڑھ چکے تھے نماز ہی میں آپ نے اور سب مقتدیوں نے کعبہ کی طرف منہ پھیرلیا اور باقی دو رکعتیں پوری کیں اس مسجد کا نام مسجد القبلتین اور ذوقبلتین ہوگیا یعنی دو قبلہ والی۔ 9  یعنی حضر میں یا سفر میں مدینہ میں یا دوسرے شہر میں جنگل میں یا دریا میں یا خود بیت المقدس میں جہاں کہیں ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔ 10  یعنی اہل کتاب جو تحویل قبلہ کی نسبت اعتراض کریں اس کی ہرگز پرواہ نہ کرنا کیونکہ انکو کتاب سے معلوم ہے کہ پیغمبر آخرالزماں بیت المقدس کی طرف کچھ دنوں نماز پڑھیں گے اور آخر کو کعبہ کی طرف پڑھیں گے اور یہ بھی انکو معلوم ہے کہ اصلی اور دائمی قبلہ ان کا ملت ابراہیمی کے موافق ہوگا اس لئے اس تحویل قبلہ کو وہ بھی حق سمجھتے ہیں محض حسد سے جو چاہیں کہیں سو حق تعالیٰ ان کی باتوں کو خوب جانتا ہے جس کا نتیجہ ان کو ایک دن معلوم ہوجائے گا۔
Top