Tafseer-e-Usmani - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
پو چھ بنی اسرائیل سے کس قدر عنایت کیں ہم نے ان کو نشانیاں کھلی ہوئی8 اور جو کوئی بدل ڈالے اللہ کی نعمت بعد اس کے کہ پہنچ چکی ہو وہ نعمت اس کو تو اللہ کا عذاب سخت ہے9
8  اس سے پہلے فرمایا تھا کہ حق تعالیٰ کے صاف حکم کے بعد اس کی مخالفت کرنا موجب عذاب ہے اب اسی کی تائید میں فرماتے ہیں کہ خود بنی اسرائیل ہی سے پوچھو کہ ہم نے ان پر کتنی آیات واضحات اور صریح احکام بھیجے جب ان سے انحراف کیا تو مبتلائے عذاب ہوئے یہ نہیں کہ ہم نے اول ہی ان کو عذاب دیا ہو۔ 9  یعنی یہ قاعدہ البتہ محقق ہے کہ جو کوئی اللہ کے احکام سراپا ہدایت کو بدلے اور اس کے انعامات اور احسانات کا کفران کرے تو پھر اس کا عذاب سخت ہے آیات کے بدلنے والے پر کہ دنیا میں مارا جائے اور لوٹا جائے یا جزیہ دے اور ذلیل ہو۔ اور قیامت کو دوزخ میں جائے ہمیشہ کے لئے۔ فائدہ :  نعمت کے پہنچ چکنے کا یہ مطلب کہ اس کا علم حاصل ہوجائے یا بےتکلف حاصل ہو سکے۔
Top