Tafseer-e-Usmani - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے حکم دیا نیچے جاؤ یہاں سے تم سب3 پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے4
3 مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ تو قبول فرمائی مگر فی الفور جنت میں جانے کا حکم نہ فرمایا بلکہ دنیا میں رہنے کا جو حکم ہوا تھا اسی کو قائم رکھا کیونکہ مقتضائے حکمت و مصلحت یہی تھا۔ ظاہر ہے کہ زمین کے لئے خلیفہ بنائے گئے تھے نہ کہ جنت کے لئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ جو ہمارے مطیع ہوں گے ان کو دنیا میں رہنا مضر نہ ہوگا بلکہ مفید، ہاں جو نافرمان ہیں ان کے لئے جہنم ہے اور اس تفریق و امتحان کے لئے بھی دنیا ہی مناسب ہے۔ 4 جو صدمہ اور اندیشہ کسی مصیبت پر اس کے ہونے سے پہلے ہوتا ہے اس کو " خوف " کہتے ہیں اور اس کے واقع ہو چکنے کے بعد جو غم ہوتا ہے اس کو " حزن " کہتے ہیں۔ مثلا کسی مریض کے مرجانے کے خیال پر جو صدمہ ہے وہ خوف ہے اور مرجانے کے بعد جو صدمہ ہے وہ حزن ہے۔ اس آیت میں جو خوف و حزن کی نفی فرمائی اس سے اگر خوف و حزن دنیاوی مراد لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ جو لوگ ہماری ہدایت کے موافق چلیں گے اس میں اس اندیشہ کی گنجائش نہیں کہ شاید یہ ہدایت حقہ نہ ہو شیطان کی طرف سے دھوکہ اور مغالطہ ہو اور نہ وہ اس وجہ سے کہ ان کے باپ سے بالفعل بہشت چھوٹ گئی محزون ہوں گے کیونکہ ہدایت والوں کو عنقریب جنت ملنے والی ہے اور اگر خوف وحزن آخرت مراد ہو تو یہ مطلب ہوگا کہ قیامت کو اہل ہدایت کو نہ خوف ہوگا نہ حزن مگر حزن کا نہ ہونا تو بیشک مسلم لیکن خوف کی نفی فرمانے پر ضرور یہ خلجان ہوتا ہے کہ اس روز خوف تو حضرات انبیاء (علیہم السلام) تک کو ہوگا کوئی بھی خوف سے خالی نہ ہوگا۔ تو بات یہ ہے کہ خوف دو طرح ہوتا ہے کبھی تو خوف کا باعث اور مرجع خائف (یعنی ڈرنے والے) میں پایا جاتا ہے جیسے مجرم بادشاہی جو بادشاہ سے ڈرتا ہے تو موجب خوف جرم ہے جو مجرم کی طرف رجوع ہوتا ہے اور کبھی مرجع خوف مخوف منہ یعنی جس سے ڈرتے ہیں اس میں کوئی امر ہوتا ہے مثلا اگر کوئی شخص کسی بادشاہ صاحب جاہ و جلال کے روبرو یا شیر کے روبرو ہو تو اس کے خائف ہونے کی یہ وجہ نہیں کہ اس نے بادشاہ یا شیر کا جرم کیا ہے بلکہ قہر و جلال سلطانی اور ہیبت اور غضب و درندگی شیر موجب خوف ہے جس کا مرجع ذات سلطانی اور خود شیر ہے۔ آیت سے پہلی قسم کی نفی ہوئی نہ دوسری قسم کی، شبہ تو جب ہوسکتا تھا کہ لاخوف علیھم کی جگہ لاخوف فیھم یا لایخافون فرماتے۔
Top