Tafseer-e-Usmani - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور جب لیا ہم نے تم سے قرار اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو کہ پکڑو جو کتاب ہے تم کو دی زور سے اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے تاکہ تم ڈرو2
2 کہتے ہیں کہ تورات نازل ہوئی تو بنی اسرائیل شرارت سے کہنے لگے کہ " توریت کے حکم تو مشکل اور بھاری ہیں ہم سے نہیں ہوسکتے " تب خدائے تعالیٰ نے ایک پہاڑ کو حکم کیا جو ان سب کے سروں پر آن کر اترنے لگا اور سامنے آگ پیدا ہوئی۔ گنجائش سرتابی اصلا نہ رہی مجبوراً احکام تورات کو قبول کیا۔ باقی یہ شبہ کہ " پہاڑ سروں پر معلق کر کے تسلیم کرانا تورات کا یہ صریح اجبار واکراہ ہے جو آیۃ لا اکراہ فی الدین اور نیز قاعدہ تکلیف کے بالکل خلاف ہے کیونکہ بنائے تکلیف تو اختیار پر ہے اور اکراہ مناقض اختیار ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکراہ دربارہ قبول دین ہرگز نہیں۔ دین تو بنی اسرائیل پہلے سے قبول کیے ہوئے تھے اور باربار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تقاضا کرتے تھے کہ کوئی کتاب متضمن احکام ہم کو لا کردو کہ اس پر عمل کریں اور اس پر معاہدہ کرچکے تھے۔ جب تورات ان کو دی گئی تو عہد شکنی پر کمر بستہ ہوئے تو اب پہاڑ کا معلق کرنا نقض عہد سے روکنے کے لیے تھا نہ کہ قبول دین کے لیے۔
Top