Tafseer-e-Usmani - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کر جہان کے لوگوں پر3
3 یعنی آپ تو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اگر کوئی بدبخت اس رحمت عامہ سے خود ہی منتفع نہ ہو تو یہ اس کا قصور ہے۔ آفتاب عالمتاب سے روشنی اور گرمی کا فیض ہر طرف پہنچتا ہے لیکن کوئی شخص اگر اپنے اوپر تمام دروازے اور سوراخ بند کرلے تو یہ اس کی دیوانگی ہوگی۔ آفتاب کے عموم فیض میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا اور یہاں تو رحمۃً للعالمین کا حلقہ فیض اس قدر وسیع ہے کہ جو محروم القسمت مستفید ہونا نہ چاہے اس کو بھی کسی نہ کسی درجہ میں بےاختیار رحمت کا حصہ پہنچ جاتا ہے۔ چناچہ دنیا میں علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے اصول کی عام اشاعت سے ہر مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق فائدہ اٹھاتا ہے۔ نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرما لیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو اپنے اپنے مذاق کے موافق فائدہ اٹھانا ہے نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرمالیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو عام ومستاصل عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ حضور ﷺ کے عام اخلاق کے علاوہ جن کافروں پر آپ ﷺ جہاد کرتے تھے وہ بھی مجموعہ عالم کے لیے سراسر رحمت تھا کیونکہ اس کے ذریعہ سے اس رحمت کبریٰ کی حفاظت ہوتی تھی جس کے آپ ﷺ حامل بن کر آئے تھا اور بہت سے اندھے جو آنکھیں بنوانے سے بھاگتے تھے اس سلسلہ میں ان کی آنکھوں میں بھی خواہ مخواہ ایمان کی روشنی پہنچ جاتی تھی، ایک حدیث میں ہے " وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَاُ قَتِّلَنَّہُمْ وَلَاُ صَلِّبَنَّہُمْ وَلَاُ ہْدِیَنَّہُمْ وَہُمْ کَارِہُوْنَ اِنِّیْ رَحْمَۃٌ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ وَلَا یَتَوَفَّانِیْ حَتّٰی یَظْھُرَ اللّٰہُ دِیْنَہ،" (ابن کثیر) ان الفاظ سے آپ کے " رحمۃً للعالمین " ہونے کا مطلب زیادہ وسعت کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔
Top