Tafseer-e-Usmani - Al-Anbiyaa : 22
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا١ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ
لَوْ كَانَ : اگر ہوتے فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اٰلِهَةٌ : اور معبود اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ لَفَسَدَتَا : البتہ دونوں درہم برہم ہوجاتے فَسُبْحٰنَ : پس پاک ہے اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : رب الْعَرْشِ : عرش عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اگر ہوتے ان دونوں میں اور معبود سوائے اللہ کے تو دونوں خراب ہوجاتے5 سو پاک ہے اللہ عرش کا مالک ان باتوں سے جو یہ بتلاتے ہیں6 
5 تعدد آلہہ کے ابطال پر یہ نہایت پختہ اور واضح دلیل ہے جو قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کی۔ اس کو یوں سمجھو کہ عبادت نام ہے کامل تذلل کا۔ اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جاسکتا ہے جو اپنی ذات وصفات میں ہر طرح کامل ہو، اسی کو ہم " اللہ " یا " خدا " کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ خدا کی ذات ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، نہ وہ کسی حیثیت سے ناقص ہو نہ بیکار، نہ عاجز ہو نہ مغلوب، نہ کسی دوسرے سے دبے نہ کوئی اس کے کام میں روک ٹوک کرسکے۔ اب اگر فرض کیجئے آسمان و زمین میں دو خدا ہوں تو دونوں اسی شان کے ہوں گے، اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ عالم کی تخلیق اور علویات و سفلیات کی تدبیر دونوں کے کلی اتفاق سے ہوتی ہے یا گاہ بگاہ باہم اختلاف بھی ہوجاتا ہے اتفاق کی صورت میں دو احتمال ہیں۔ یا تو اکیلے ایک سے کام نہیں چل سکتا تھا اس لیے دونوں نے مل کر انتظام کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک بھی کامل قدرت والا نہیں اور اگر تنہا ایک سارے عالم کا کامل طور پر انجام کرسکتا تھا تو دوسرا بیکار ٹھہرا حالانکہ خدا کا وجود اسی لیے ماننا پڑا ہے کہ اس کے مانے بدون چارہ ہی نہیں ہوسکتا اور اگر اختلاف کی صورت فرض کریں تو لامحالہ مقابلہ میں ایک مغلوب ہو کر اپنے ارادہ اور تجویز کو چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ خدا نہ رہا۔ اور یا دونوں بالکل مساوی و متوازی طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادہ اور تجویز کو عمل میں لانا چاہیں گے۔ اول تو (معاذ اللہ) خداؤں کی اس رسہ کشی میں سرے سے کوئی چیز موجود ہی نہ ہو سکے گی اور موجود چیز پر زور آزمائی ہونے لگی تو اس کشمکش میں ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہوجائے گی۔ یہاں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر آسمان و زمین میں دو خدا ہوتے تو آسمان و زمین کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہوجاتا۔ ورنہ ایک خدا کا بیکار یا ناقص و عاجز ہونا لازم آتا ہے جو خلاف مفروض ہے۔ 6  جو عرش (تخت شاہی) کا اکیلا مالک ہے، اس کے ملک میں شرکت کی گنجائش ہی نہیں۔ دو خود مختار بادشاہ جب ایک اقلیم میں نہیں سما سکتے جن کی خود مختاری بھی محض مجازی ہے تو دو مختار کل اور قادر مطلق خدا ایک قلمرو میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں۔
Top