Tafseer-e-Usmani - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
بولا نہیں پر یہ کیا ہے ان کے اس بڑے نے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں1
1 یعنی مجھ سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ فرض کرلیا جائے کہ اس بڑے گروگھنٹال نے جو صحیح سالم کھڑا ہے اور توڑنے کا آلہ بھی اس کے پاس موجود ہے، یہ کام کیا ہوگا۔ لیجئے بحث و تحقیق کے وقت بطور الزام و تبکیت میں یہ دعویٰ کیے لیتا ہوں کہ بڑے بت نے سب چھوٹوں کو توڑ ڈالا۔ اب آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کیا دنیا میں ایسا ہوتا نہیں کہ بڑے سانپ چھوٹے سانپوں کو، بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے۔ اور بڑے بادشاہ چھوٹی سلطنتوں کو تباہ کر ڈالتے ہیں، اس لیے بہترین صورت میرے تمہارے درمیان فیصلہ کی یہ ہے کہ تم خود اپنے ان معبودوں ہی سے دریافت کرلو کہ یہ ماجرا کس طرح ہوا، اگر یہ کچھ بول سکتے ہیں تو کیا ایسے اہم معاملہ میں بول کر میرے جھوٹ سچ کا فیصلہ نہ کردیں گے ؟ (تنبیہ) ہماری تقریر سے ظاہر ہوگیا کہ (بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا) 21 ۔ الانبیآء :63) کہنا خلاف واقعہ خبر دینے کے طور پر نہ تھا جسے حقیقتہً جھوٹ کہا جائے بلکہ ان کی تحمیق و تجہیل کے لیے ایک فرضی احتمال کو بصورت دعویٰ لے کر بطور تعریض و الزام کلام کیا گیا تھا جیسا کہ عموماً بحث و مناظرہ میں ہوتا ہے اس کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں بظاہر صورت جھوٹ کی معلوم ہوتی ہے اسی لیے بعض احادیث میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق صورۃً کیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس کی توجیہ میں اور بھی کئی محمل بیان کیے ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک یہ ہی تقریر زیادہ صاف بےتکلف اوراقرب الی الروایات ہے۔ واللہ اعلم۔
Top