Tafseer-e-Usmani - Al-Anbiyaa : 98
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم وَمَا : اور جو تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا حَصَبُ : ایندھن جَهَنَّمَ : جہنم اَنْتُمْ لَهَا : تم اس میں وٰرِدُوْنَ : داخل ہونے والے
تم اور جو کچھ تم پوجتے ہو اللہ کے سوا ایندھن ہے دوزخ کا تم کو اس پر پہنچنا ہے3
3 یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو بت پوجتے تھے، یعنی تم اور تمہارے یہ معبود سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے (وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ) 2 ۔ البقرۃ :24) اس کے معنی یہ نہیں کہ اصنام (بت) معذب ہوں گے۔ بلکہ غرص یہ ہے کہ بت پرستوں پر حجت زیادہ لازم ہو۔ جیسا کہ آگے فرمایا (لَوْ كَانَ هٰٓؤُلَاۗءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا) 21 ۔ الانبیآء :99) اور ان کی حسرت بڑھے اور حماقت زیادہ واضح ہو کہ جن سے خیر کی توقع رکھتے تھے وہ آج خود اپنے کو نہ بچا سکے پھر ہماری حفاظت کیا کرسکتے ہیں۔ (تنبیہ) " وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ " سے مراد یہاں صرف اصنام ہیں۔ کیونکہ خطاب ان ہی کے پرستاروں سے ہے۔ لیکن اگر " ما " کو عام رکھا جائے تو " بشرط عدم المانع " کی قید معتبر ہوگی یعنی جن فرضی معبودوں میں کوئی مانع دخول نار سے نہ ہو وہ اپنے عابدین کے ساتھ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے۔ مثلاً شیاطین و اصنام۔ باقی حضرت مسیح و عزیر اور ملائکۃ اللہ جن کو بہت لوگوں نے معبود ٹھہرا لیا۔ ان حضرات کی مقبولیت و وجاہت مانع ہے کہ (معاذ اللہ) اس عموم میں شامل رکھے جائیں۔ اسی لیے آگے تصریحاً فرما دیا (اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :101)
Top