Tafseer-e-Usmani - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیری طرف پیروں چل کر اور سوار ہو کر دبلے دبلے اونٹوں پر چلے آئیں راہوں دور سے6 
6  جب کعبہ تعمیر ہوگیا تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پکارا کہ لوگو ! تم پر اللہ نے حج فرض کیا ہے حج کو آؤ۔ حق تعالیٰ نے یہ آواز ہر طرف ہر ایک روح کو پہنچا دی (بلا تشبیہ جیسے آجکل ہم امریکہ یا ہندوستان میں بیٹھ کر لندن کی آوازیں سن لیتے ہیں) جس کے لیے حج مقدر تھا اس کی روح نے لبیک کہا۔ وہ ہی شوق کی دبی ہوئی چنگاری ہے کہ ہزاروں آدمی پا پیادہ تکلیفیں اٹھاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں اور بہت سے اتنی دور سے سوار ہو کر آتے ہیں کہ چلتے چلتے اونٹنیاں تھک جاتی اور دبلی ہوجاتی ہیں، بلکہ عموماً حاجیوں کو عمدہ سانڈنیاں کہاں ملتی ہیں ان ہی سوکھے دبلے اونٹوں پر منزلیں قطع کرتے ہیں۔ یہ گویا اس دعا کی مقبولیت کا اثر ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی تھی (فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ ) 14 ۔ ابراہیم :34)
Top