Tafseer-e-Usmani - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا8 اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے9
8 جب تک آنحضرت ﷺ مکہ میں تھے۔ حکم تھا کہ کفار کی سختیوں پر مسلمان صبر کریں اور ہاتھ روکے رکھیں۔ چناچہ انہوں نے کامل تیرہ سال تک سخت زہرہ گداز مظالم کے مقابلہ میں بےمثال صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا۔ جب مدینہ " دارالاسلام " بن گیا اور مسلمانوں کی قلیل سی جمعیت ایک مستقل مرکز پر جمع ہوگئی تو مظلوم مسلمانوں کو جن سے کفار برابر لڑتے رہتے تھے اجازت ہوئی بلکہ حکم ہوا کہ ظالموں کے مقابلہ پر تلوار اٹھائیں۔ اور اپنی جماعت اور مذہب کی حفاظت کریں۔ اسی قسم کی کئی آیتیں اسی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں۔ 9 یعنی اپنی قلت اور بےسروسامانی سے نہ گھبرائیں۔ اللہ تعالیٰ مٹھی بھر فاقہ مستوں کو دنیا کی فوجوں اور سلطنتوں پر غالب کرسکتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک شہنشاہانہ طرز میں مسلمانوں کی نصرت و امداد کا وعدہ تھا۔ جیسے دنیا میں بادشاہ اور بڑے لوگ وعدہ کے موقع پر اپنی شان وقار و استغناء دکھلانے کے لیے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہاں تمہارا فلاں کام ہم کرسکتے ہیں۔ شاید یہ عنوان اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ مخاطب سمجھ لے کہ ہم ایسا کرنے میں کسی سے مجبور نہیں ہیں جو کچھ کریں گے اپنی قدرت و اختیار سے کریں گے۔
Top