Tafseer-e-Usmani - Al-Hajj : 69
اَللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَحْكُمُ : فیصلہ کرے گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اللہ فیصلہ کرے گا تم میں قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی1
1 تمام انبیاء اصول دین میں متفق رہے ہیں۔ البتہ ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندگی کی صورتیں مختلف زمانوں میں مختلف مقرر کی ہیں۔ جن کے موافق وہ امتیں خدا کی عبادت بجا لاتی رہیں۔ اس امت محمدی کے لیے بھی ایک خاص شریعت بھیجی گئی لیکن اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا۔ بجز اللہ کے کبھی کسی دوسری چیز کی عبادت مقرر نہیں کی گئی۔ اس سے توحید وغیرہ کے ان متفق علیہ کاموں میں جھگڑا کرنا کسی کو کسی حال زیبا نہیں۔ جب ایسی کھلی ہوئی چیز میں بھی حجتیں نکالی جائیں تو آپ کچھ پروا نہ کریں۔ آپ جس سیدھی راہ پر قائم ہیں لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیے۔ اور خواہ مخواہ کے جھگڑے نکالنے والوں کا معاملہ خدائے واحد کے سپرد کیجئے۔ وہ خود ان کی تمام حرکات سے واقف ہے۔ قیامت کے دن ان کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا عملی فیصلہ کر دے گا۔ آپ دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کر کے ان کی فکر میں زیادہ درد سری نہ اٹھائیں۔ ایسے ضدی معاندین کا علاج خدا کے پاس ہے (تنبیہ) (فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ) 22 ۔ الحج :67) کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جداگانہ دستور العمل مقرر کیا ہے، پھر اس پیغمبر کی امت کے لیے نئی شریعت آئی تو جھگڑنے کی کیا بات ہے۔ بعض مفسرین نے " مَنْسَک " کے معنی ذبح و قربانی کے لیے ہیں، مگر اقرب وہ ہی ہے جو مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے اختیار فرمایا۔ واللہ اعلم۔
Top