Tafseer-e-Usmani - Al-Hajj : 75
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ
اَللّٰهُ : اللہ يَصْطَفِيْ : چن لیتا ہے مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں میں سے رُسُلًا : پیغام پہنچانے والے وَّ : اور مِنَ النَّاسِ : آدمیوں میں سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اللہ چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں3 اللہ سنتا دیکھتا ہے4
3 یعنی بعض فرشتوں سے پیغامبری کا کام لیتا ہے (مثلاً جبرائیل علیہ السلام) اور بعض انسانوں سے جن کو خدا اس منصب کے لیے انتخاب فرمائے گا۔ ظاہر ہے ان کا درجہ دوسری تمام خلائق سے اعلیٰ ہونا چاہیے۔ 4 یعنی ان کی تمام باتوں کو اور ان کے ماضی و مستقبل کے تمام احوال کو دیکھتا ہے اس لیے وہ ہی حق رکھتا ہے کہ جس کے احوال و استعداد پر نظر کر کے منصب رسالت پر فائز کرنا چاہیے فائز کر دے۔ ( ۂاَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الانعام :124) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ " یعنی ساری خلق میں بہتر وہ لوگ ہیں پیغام پہنچانے والے، فرشتوں میں بھی وہ فرشتے اعلیٰ ہیں۔ ان کو (یعنی ان کی ہدایات کو) چھوڑ کر بتوں کو مانتے ہو " کس قدر بےتکی بات ہے۔
Top