Tafseer-e-Usmani - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے رسولو کھاؤ ستھری چیزیں اور کام کرو بھلا1 جو تم کرتے ہو میں جانتا ہوں2
1 یعنی سب پیغمبروں کے دین میں یہ ہی ایک حکم رہا کہ حلال کھانا حلال راہ سے کما کر۔ اور نیک کام کرنا۔ نیک کام سب خلق جانتی ہے۔ چناچہ تمام پیغمبر نہایت مضبوطی اور استقامت کے ساتھ اکل حلال، صدق مقال اور نیک اعمال پر مواظبت اور اپنی امتوں کو اسی کی تاکید کرتے رہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اسی طرح کا حکم جو یہاں رسولوں کو ہوا، عامہ مومنین کو دیا گیا ہے۔ اس میں نصاریٰ کی رہبانیت کا بھی رد ہوگیا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا کھانا پینا، حرام کا ہو، اسے اپنی دعاء کے قبول ہونے کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ جو گوشت حرام سے آگاہ ہو، دوزخ کی آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ العیاذ باللہ۔ 2 یعنی حلال کھانے اور نیک کام کرنے والوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام کھلے چھپے احوال و افعال سے باخبر ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔ یہ رسولوں کو خطاب کر کے امتوں کو سنایا۔
Top