Tafseer-e-Usmani - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور کھول دیں جو تکلیف پہنچی ان کو تو بھی برابر لگے رہیں گے اپنی شرارت میں بہکے ہوئے1
1 یعنی تکلیف سے نکال کر آرام دیں۔ تب بھی احسان نہ مانیں اور شرارت و سرکشی سے باز نہ آئیں۔ حضرت کی دعا سے ایک مرتبہ مکہ والوں پر قحط پڑا تھا، پھر حضرت ہی کی دعا سے کھلا۔ شاید یہ اسی کو فرمایا، یا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم اپنی رحمت سے ان کے نقصان کو دور کردیں۔ یعنی قرآن کی سمجھ دے دیں۔ تب بھی یہ لوگ اپنے ازلی خسران اور سوء استعداد کی وجہ سے اطاعت وانقیاد اختیار کرنے والے نہیں کمال قال تعالیٰ (وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) 8 ۔ الانفال :23)
Top