Tafseer-e-Usmani - Ash-Shu'araa : 194
عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ
عَلٰي : پر قَلْبِكَ : تمہارا دل لِتَكُوْنَ : تاکہ تم ہو مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ : ڈر سنانے والوں میں سے
تیرے دل پر کہ تو ہو ڈر سنا دینے والاف 2
2 آغاز سورت میں قرآن کریم کا ذکر تھا اور اس کی تکذیب پر دھمکی دی گئی تھی، درمیان میں مکذبینِ حق کے واقعات بیان ہوئے، یہاں سے پھر مضمون سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم وہ مبارک اور عظیم الشان کتاب ہے جسے رب العالمین نے اتارا، جبرائیل امین لے کر اترے اور تیرے پاک و صاف قلب پر اتاری گئی کیونکہ یہ ہی قلب تھا جو اللہ کے علم میں اس بھاری امانت کو اٹھانے اور سنبھالنے کے لائق تھا، چناچہ وحی قرآنی آئی اور سیدھی تیرے دل میں اترتی چلی گئی۔ تو نے اس کو اپنے سارے دل سے سنا اور سمجھا اور محفوظ رکھا، شاید " عَلٰی قَلْبِکَ " کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہو کہ نزول وحی کی جو دو کیفیتیں احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہیں (یعنی کبھی " صلصلۃ الجرس " کی طرح آنا اور کبھی فرشتہ کا آدمی کی صورت میں سامنے آکر بات کرنا) ان میں سے قرآن کی وحی اغلبًا پہلی کیفیت کے ساتھ آتی تھی۔ کیونکہ دونوں حالتوں میں محققین کے نزدیک فرق یہ تھا کہ پہلی حالت میں پیغمبر کو بشریت سے منخلع ہو کر ملکیت کی طرف جانا پڑتا تھا۔ گویا اس وقت آلات جسدانیہ کو بالکل معطل کر کے صرف روحی قوتوں اور قلبی حواس سے کام لیتے تھے، دل کے کانوں سے وحی کی آواز سنتے تھے اور دل کی آنکھوں سے فرشتہ کو دیکھتے تھے اور دل کی الٰہی قوتوں سے ان علوم کی تلقی کرتے تھے اور محفوظ رکھتے تھے بخلاف دوسری حالت کے کہ اس میں فرشتہ کو ملکیت سے نزول کر کے بشریت کی طرف آنا پڑتا تھا، اس وقت پیغمبر ان ہی ظاہری آنکھوں سے فرشتہ کو دیکھتے اور ان ہی ظاہری کانوں کے توسط سے آواز سنتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وحی کی پہلی قسم کو احادیث میں فرمایا کہ " ہُوَ اَشَدَّہ، عَلٰی " (وہ مجھ پر بہت بھاری ہوتی ہے) کیونکہ اس میں آپ ﷺ کو بشریت سے ملکیت کی طرف صعود کرنا پڑتا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top