Tafseer-e-Usmani - Ash-Shu'araa : 211
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَؕ
وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور سزاوار نہیں لَهُمْ : ان کو وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : اور نہ وہ کرسکتے ہیں
اور نہ ان سے بن آئے اور نہ وہ کرسکیں2
2 درمیان میں مکذبین کے احوال بیان فرما کر پھر اصل مضمون (وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 192؀ۭ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ 193؀ۙ ) 26 ۔ الشعرآء :192) کی تکمیل و تمیم فرماتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کے ہاں سے جبرائیل امین لائے ہیں۔ شیاطین کی سکھلائی ہوئی چیز نہیں۔ بھلا شیاطین سے کہاں ممکن ہے کہ ایسی کتاب بن آئے۔ ان کی طبائع کا خاصہ تو گمراہی، فساد، اور ظلمت پھیلانا ہے۔ اور یہ کتاب اول سے آخر تک رشد و صلاح اور نور ہدایت سے بھری ہوئی ہے جس کی تعلیم سے وہ جماعت تیار ہوئی۔ جس سے زیادہ آسمان کے نیچے بجز انبیاء کے کوئی پاک باز، صادق، خدا ترس اور خدا پرست جماعت نہیں تو اس کتاب کے علوم اور شیاطین کی طبائع میں کوئی مناسبت نہیں۔ نہ وہ اس لائق ہیں کہ اس عظیم الشان، متبرک بار امانت کو اٹھا سکیں۔ (لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ) 59 ۔ الحشر :21) روایات میں ہے کہ بعض مشرکین کا خیال تھا کہ محمد ﷺ کے پاس کوئی جن آکر یہ قرآن سکھلا جاتا ہے۔ بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ وحی آنے میں کچھ دیر ہوئی تو ایک عورت نے حضور ﷺ کو کہا کہ تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا (نعوذ باللہ) ان آیات میں اسی خیال کی تردید ہے۔
Top