Tafseer-e-Usmani - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْجِبَالَ : پہاڑ (جمع) تَحْسَبُهَا : تو خیال کرتا ہے انہیں جَامِدَةً : جما ہوا وَّهِىَ : اور وہ تَمُرُّ : چلیں گے مَرَّ السَّحَابِ : بادلوں کی طرح چلنا صُنْعَ اللّٰهِ : اللہ کی کاری گری الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَتْقَنَ : خوبی سے بنایا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّهٗ : بیشک وہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور تو دیکھے پہاڑوں کو سمجھے کہ وہ جم رہے ہیں اور وہ چلیں گے جیسے چلے بادل6  کاری گری اللہ کی جس نے سادھا ہے ہر چیز کو7 اس کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو8
6  یعنی جن بڑے بڑے پہاڑوں کو تم اس وقت دیکھ کر خیال کرتے ہو کہ ہمیشہ کے لیے زمین میں جمے ہوئے ہیں کبھی اپنی جگہ سے جنبش نہ کھا سکیں گے، قیامت کے دن یہ روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑتے پھریں گے اور بادل کی طرح تیز رفتار ہوں گے۔ " وبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ہَبَآءً مُّنْبَثًّا (واقعہ، رکوع 1 ' آیت 6 ' 5) (وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ ) 101 ۔ القارعہ :5) (وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا) 20 ۔ طہ :105) (تنبیہ) آیت ہذا کو زمین کی حرکت و سکون کے مسئلہ سے کچھ علاقہ نہیں جیسا کہ بعض متنورین نے سمجھا ہے۔ 7 یعنی جس نے ہر چیز کو نہایت حکمت سے درست کیا اسی نے آج پہاڑوں کو ایسا بھاری اور مضبوط بنایا ہے اور وہی ان کو ایک دن ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا۔ وہ اڑانا محض تباہ کرنے کی غرض سے نہ ہوگا بلکہ عالم کو توڑ پھوڑ کر اس درجہ پر پہنچانا ہوگا جہاں پہنچانے کے لیے ہی اسے پیدا کیا ہے۔ تو یہ اسی صانع حقیقی کی کاریگری ہوئی جس کا کوئی تصرف حکمت سے خالی نہیں۔ 8 یعنی اس توڑ پھوڑ اور انقلاب عظیم کے بعد بندوں کا حساب کتاب ہوگا اور چونکہ حق تعالیٰ بندوں کے ذرہ ذرہ عمل سے خبردار ہے تو ہر ایک کو ٹھیک اس کے عمل کے موافق جزا و سزا دی جائے گی۔ نہ ظلم ہوگا نہ حق تلفی ہوگی۔ آگے اسی کے قدرے تفصیل ہے۔
Top