Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ
فَسَقٰى : تو اس نے پانی پلایا لَهُمَا : ان کے لیے ثُمَّ تَوَلّيٰٓ : پھر وہ پھر آیا اِلَى الظِّلِّ : سایہ کی طرف فَقَالَ : پھر عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں لِمَآ : اس کا جو اَنْزَلْتَ : تو اتارے اِلَيَّ : میری طرف مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی (نعمت) فَقِيْرٌ : محتاج
پھر اس نے پانی پلا دیا ان کے جانوروں کو8 پھر ہٹ کر آیا چھاؤں کی طرف، بولا اے رب تو جو چیز اتارے میری طرف اچھی میں اس کا محتاج ہوں9
8 پیغمبروں کے فطری جذبات و ملکات ایسے ہوتے ہیں، تھکے ماندے، بھوکے پیاسے تھے مگر غیرت آئی کہ میری موجودگی میں یہ صنف ضعیف ہمدردی سے محروم رہے۔ اٹھے اور مجمع کو ہٹا کر یا ان کے بعد کنوئیں سے تازہ پانی نکال کر لڑکیوں کے جانوروں کو سیراب کیا۔ 9 یعنی اے اللہ کسی عمل کی اجرت مخلوق سے نہیں چاہتا۔ البتہ تیری طرف سے کوئی بھلائی پہنچے اس کا ہمہ وقت محتاج ہوں۔ حضرت شاہ صاحب ' لکھتے ہیں " عورتوں نے پہچانا کہ چھانؤں پکڑتا ہے مسافر ہے۔ دور سے آیا ہوا، تھکا، بھوکا۔ جا کر اپنے باپ سے کہا (وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے علی القول المشہور) ان کو درکار تھا کہ کوئی مرد ملے نیک بخت جو بکریاں تھامے اور بیٹی بھی بیاہ دیں۔ " (موضح)
Top