Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 45
وَ لٰكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ١ۚ وَ مَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا١ۙ وَ لٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ
وَلٰكِنَّآ : اور لیکن ہم نے اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیں قُرُوْنًا : بہت سی امتیں فَتَطَاوَلَ : طویل ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان کی، ان پر الْعُمُرُ : مدت وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے ثَاوِيًا : رہنے والے فِيْٓ : میں اَهْلِ مَدْيَنَ : اہل مدین تَتْلُوْا : تم پڑھتے عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتِنَا : ہمارے احکام وَلٰكِنَّا : اور لیکن ہم كُنَّا : ہم تھے مُرْسِلِيْنَ : رسول بنا کر بھیجنے والے
لیکن ہم نے پیدا کیں کئی جماعتیں پھر دراز ہوئی ان پر مدت3 اور تو نہ رہتا تھا مدین والوں میں کہ ان کو سناتا ہماری آیتیں پر ہم رہے ہیں رسول بھیجتے4
3 یعنی تو اس وقت کے واقعات تو ایسی صحت و صفائی اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہا ہے جیسے وہیں " طور " کے پاس کھڑا دیکھ رہا ہو۔ حالانکہ تمہارا موقع پر موجود نہ ہونا ظاہر ہے اور ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ تم امیّ ہو۔ کسی عالم کی صحبت میں بھی نہیں رہے۔ نہ ٹھیک ٹھیک صحیح واقعات کا کوئی جید عالم مکہ میں موجود تھا۔ پھر غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ عالم کہاں سے آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام دنیا پر مدتیں اور قرن گزر گئے، مرور دہور سے وہ علوم محرف و مندرس ہوتے جا رہے تھے اور وہ ہدایات مٹتی جا رہی تھیں۔ لہذا اس علیم وخبیر کا ارادہ ہوا کہ ایک امی کی زبان سے بھولے ہوئے سبق یاد دلائے جائیں اور ان عبرتناک و موعظت آمیز واقعات کا ایسا صحیح فوٹو دنیا کے سامنے پیش کردیا جائے جس پر نظر کر کے بےاختیار ماننا پڑے کہ اس کا پیش کرنے والا موقع پر موجود تھا اور اپنی آنکھوں سے من و عن کیفیات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ تم تو وہاں موجود نہ تھے، بجز اس کے کیا کہا جائے کہ جو خدا آپ کی زبان سے بول رہا ہے اور جس کے سامنے ہر غائب بھی حاضر ہے۔ یہ بیان اسی کا ہوگا۔ 4 یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو " مدین " جا کر جو واقعات پیش آئے ان کا اس خوبی و صحت سے بیان تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس وقت تم شان پیغمبری کے ساتھ وہیں سکونت پذیر تھے اور جس طرح آج اپنے وطن مکہ میں اللہ کی آیات پڑھ کر سنا رہے ہو، اس وقت " مدین " والوں کو سناتے ہو گے حالانکہ یہ چیز صریحاً منفی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم ہمیشہ سے پیغمبر بھیجتے رہے ہیں جو دنیا کو غفلت سے چونکاتے اور گذشتہ عبرتناک واقعات یاد دلاتے رہیں۔ اسی عام عادت کے موافق ہم نے اس زمانہ میں تم کو رسول بنا کر بھیجا کہ پچھلے قصے یاد دلاؤ۔ اور خواب غفلت سے مخلوق کو بیدار کرو۔ اس لیے ضروری ہوا کہ ٹھیک ٹھیک واقعات کا صحیح علم تم کو دیا جائے اور تمہاری زبان سے ادا کرایا جائے۔
Top