Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
وہ لوگ پائیں گے اپنا ثواب دوہرا اس بات پر کہ قائم رہے5 اور بھلائی کرتے ہیں برائی کے جواب میں6  اور ہمارا دیا ہوا کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں7
5 یعنی مغرور و مستغنی ہو کر قبول حق سے گریز نہیں کیا بلکہ جس وقت جو حق پہنچا بےتکلف گردن تسلیم جھکا دی۔ (تنبیہ) شیخ اکبر نے فتوحات میں لکھا ہے کہ ان اہل کتاب کا ایمان اپنے پیغمبر پر دو مرتبہ ہوا۔ اول بالاستقلال دوبارہ نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کے ضمن میں۔ کیونکہ حضور ﷺ تمام انبیاء سابقین کے مصدق ہیں اور ان پر ایمان رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اور حضور ﷺ پر بھی ان کا ایمان دو مرتبہ ہوا۔ ایک اب بالذات اور بالاستقلال دوسرا پہلے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کے ضمن میں۔ کیونکہ ہر پیغمبر حضور ﷺ کی بشارت دیتے، اور پیشگی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں اسی لیے ان لوگوں کو اجر بھی دو مرتبہ ملے گا باقی حدیث میں جو " ثَلاَثُ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ " آیا ہے اس کی شرح کا یہاں موقع نہیں۔ ہم نے خدا کے فضل سے شرح صحیح مسلم میں اس کو بتفصیل لکھا ہے اور اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ فللّٰہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمہ۔ 6  یعنی کوئی دوسرا ان کے ساتھ برائی سے پیش آئے تو یہ اس کے جواب میں مروت و شرافت سے کام لے کر بھلائی اور احسان کرتے ہیں۔ یا یہ مطلب کہ کبھی ان سے کوئی برا کام ہوجائے تو اس کا تدارک بھلائی سے کردیتے ہیں تاکہ حسنات کا پلہ سیئات سے بھاری رہے۔ 7 یعنی اللہ نے جو مال حلال دیا ہے اس میں سے زکوٰۃ دیتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں اور خویش واقارب کی خبر لیتے ہیں۔ غرض حقوق العباد ضائع نہیں کرتے۔
Top