Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
قارون جو تھا سو موسیٰ کی قوم سے پھر شرارت کرنے لگا ان پر8 اور ہم نے دیے تھے اس کو خزانے اتنے کہ اس کی کنجیاں اٹھانے سے تھک جاتے کئی مرد زور آور9 جب کہا اس کو اس کی قوم نے اترا مت اللہ کو نہیں بھاتے اترانے والے1
8 رکوع سابق کے آغاز میں دنیا کی بےثباتی اور حقارت آخرت کے مقابلہ میں بیان کی گئی تھی۔ بعدہ ذکر آخرت کی مناسبت سے کچھ احوال عالم آخرت کے بیان ہوئے۔ رکوع حاضر میں پھر اصل مضمون کی طرف عود کیا گیا ہے اور اسی دعوے کے استشہاد میں قارون کا قصہ سنایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور فرعون کی پیشی میں رہتا تھا، جیسا کہ ظالم حکومتوں کا دستور ہے کہ کسی قوم کا خون چوسنے کے لیے انہی میں سے بعض افراد کو اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں۔ فرعون نے بنی اسرائیل میں سے اس ملعون کو چن لیا تھا۔ قارون نے اس وقت موقع پا کر دونوں ہاتھوں سے خوب دولت سمیٹی اور دنیاوی اقتدار حاصل کیا۔ جب بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے زیر حکم آئے اور فرعون غرق ہوا تو اس کی مالی ترقی کے ذرائع مسدود ہوگئے اور سرداری جاتی رہی۔ اس حسد وغیظ میں حضرت موسیٰ سے دل میں خلش رکھنے لگا۔ تاہم ظاہر میں مومن بنا ہوا تھا، تورات بہت پڑتا اور علم حاصل کرنے میں مشغول رہتا تھا۔ مگر دل صاف نہ تھا۔ حضرت موسیٰ اور ہارون کی خداداد عزت و وجاہت دیکھ کر جلتا اور کہتا کہ آخر میں بھی ان ہی کے چچا کا بیٹا ہوں۔ یہ کیا معنی کہ وہ دونوں تو نبی اور مذہبی سردار بن جائیں، مجھے کچھ بھی نہ ملے۔ کبھی مایوس ہو کر شیخی مارتا کہ انھیں نبوت مل گئی تو کیا ہوا۔ میرے پاس مال و دولت کے اتنے خزانے ہیں جو کسی کو میسر نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا تو لوگوں سے کہنے لگا کہ اب تک تو موسیٰ جو احکام لائے ہم تم نے برداشت کیے۔ مگر کیا تم یہ بھی برداشت کرلو گے کہ وہ ہمارا مال بھی ہم سے وصول کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے اس کی تائید میں کہا نہیں، ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ آخر ملعون نے حضرت موسیٰ کو بدنام کرنے کی ایک گندی تجویز سوچی۔ کسی عورت کو بہکا سکھلا کر آمادہ کیا کہ بھرے مجمع میں جب موسیٰ (علیہ السلام) زناء کی حد بیان فرمائیں تو اپنے ساتھ ان کو مہتم کرنا۔ چناچہ عورت مجمع میں کہہ گزری۔ جب حضرت موسیٰ نے اس کو شدید قسمیں دیں، اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرایا تو اس کا دل ڈرا۔ تب اس نے صاف کہہ دیا کہ قارون نے مجھ کو سکھایا تھا۔ اس وقت حضرت موسیٰ کی بد دعا سے وہ مع اپنے گھر اور خزانوں کے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ 9 بعض سلف نے " مفاتح " کی تفسیر خزائن سے کی ہے۔ یعنی اس قدر روپیہ تھا کہ طاقتور مردوں کی ایک جماعت بھی اسے مشکل سے اٹھا سکتی۔ لیکن اکثر مفسرین نے مفاتح کی تفسیر کنجیوں سے کی ہے۔ یعنی مال کے صندوق اتنے تھے جن کی کنجیاں اٹھاتے ہوئے کئی زور آور آدمی تھک جائیں۔ اور یہ چنداں مستبعد نہیں جیسا کہ بعض تفاسیر میں اس کی صورت بتلائی گئی ہے۔ 1 یعنی اس فانی و زائل دولت پر کیا اتراتا ہے جس کی وقعت اللہ کے ہاں پر پشہ کی برابر بھی نہیں۔ خوب سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کو اکڑنے اور اترانے والے بندے اچھے نہیں معلوم ہوتے اور جو چیز اس مالک کو نہ بھائے اس کا نتیجہ بجز تباہی و ہلاکت کے کیا ہے۔
Top