Tafseer-e-Usmani - Al-Ankaboot : 31
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ١ۚ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَۚۖ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَآ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰى : خوشخبری لے کر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم مُهْلِكُوْٓا : ہلاک کرنے والے اَهْلِ : لوگ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ : اس بستی اِنَّ : بیشک اَهْلَهَا : اس کے لوگ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : ظالم (بڑے شریر) ہیں
اور جب پہنچے ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر بولے ہم کو غارت کرنا ہے اس بستی والوں کو بیشک اس کے لوگ ہو رہے ہیں گناہ گار7
7 لوط (علیہ السلام) کی دعا پر فرشتوں کو اس بستی کے تباہ کرنے کا حکم ہوا۔ فرشتے اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، ان کو بڑھاپے میں بیٹے کی بشارت سنائی اور اطلاع دی کہ ہم اس بستی (سُدُوم) کو تباہ و برباد کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے لوگ کسی طرح اپنی حرکات شنیعہ سے باز نہیں آتے۔ ان واقعات کی تفصیل سورة اعراف، ہود اور حجر وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ (تنبیہ) شاید ہلاکت کی خبر کے ساتھ بیٹے کی بشارت دینے کا مطلب یہ ہو کہ ایک قوم سے اگر خدا کی زمین خالی کی جانے والی ہے تو دوسری طرف حق تعالیٰ ایک عظیم الشان قوم " بنی اسرائیل " کی بنیاد ڈالنے والا ہے۔ نبہ علیہ العلامۃ النیشابوری فی تفسیرہ۔
Top