Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر پڑھی جاتی ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا رسول ہے اور جو کوئی مضبوط پکڑے اللہ کو تو اس کو ہدایت ہوئی سیدھے راستہ کی 4
4 یعنی بہت بعید ہے کہ وہ قوم ایمان لائے پیچھے کافر بن جائے یا کافروں جیسے کام کرنے لگے، جس کے درمیان خدا کا عظیم الشان پیغمبر جلوہ افروز ہو، جو شب و روز ان کو اللہ کا روح پرور کلام اور اسکی تازہ بتازہ آیتیں پڑھ کر سناتا رہتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ جس نے ہر طرف سے قطع نظر کر کے ایک خدا کو مضبوط پکڑ لیا اور اسی پر دل سے اعتماد و توکل کیا اسے کوئی طاقت کامیابی کے سیدھے راستہ سے ادھر ادھر نہیں ہٹا سکتی۔ (تنبیہ) انصار مدینہ کے دو خاندانوں اوس و خزرَج کے باہم اسلام سے قبل سخت عداوت اور دشمنی تھی، ذرا ذرا بات پر لڑائی اور خونریزی کا بازار گرم ہوجاتا تھا جو برسوں تک سرد نہ ہوتا تھا۔ چناچہ " بعاث " کی مشہور جنگ ایک سو بیس سال تک رہی آخر پیغمر عربی ﷺ کی ہجرت پر ان کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اسلام کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کے فیض صحبت نے دونوں قبیلوں کو جو صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہتے تھے ملا کر شیر و شکر کردیا اور نہایت مضبوط برادرانہ تعلقات قائم کردیئے۔ یہود مدینہ کو ان دونوں حریف خاندانوں کا اس طرح مل بیٹھنا اور متفقہ طاقت سے اسلام کی خدمت و حمایت کرنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ایک اندھے یہودی شماّس بن قیس نے کسی فتنہ پرداز شخص کو بھیجا کہ جس مجلس میں دونوں خاندان جمع ہوں وہاں کسی ترکیب سے بعاث کی لڑائی کا ذکر چھیڑ دے۔ چناچہ اس نے مناسب موقع پا کر بعاث کی یاد تازہ کرنے والے اشعار سنانے شروع کردیئے۔ اشعار کا سننا تھا کہ ایک مرتبہ بجھی ہوئی چنگاریاں پھر سلگ اٹھیں۔ زبانی جنگ سے گزر کر ہتھیاروں کی لڑائی شروع ہونے کو تھی کہ نبی کریم ﷺ جماعت مہاجرین کو ہمراہ لئے ہوئے موقع پر پہنچ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے گروہ مسلمین ! اللہ سے ڈرو، میں تم میں موجود ہوں۔ پھر یہ جاہلیت کی پکار کیسی ؟ خدا نے تم کو ہدایت دی، اسلام سے مشرف کیا۔ جاہلیت کی تاریکیوں کو محو فرما دیا۔ کیا ان ہی کفریات کی طرف پھر الٹے پاؤں لوٹنا چاہتے ہو جن سے نکل کر آئے تھے۔ اس پیغمبرانہ آواز کا سننا تھا کہ شیطانی جال کے سب حلقے ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے۔ اوس و خزرج نے ہتھیار پھینک دیئے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگے۔ سب نے سمجھ لیا کہ یہ سب ان کے دشمنوں کی فتنہ انگیزی تھی۔ جس سے آیندہ ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیئے۔ اسی واقعہ کے متعلق یہ کئی آیتیں نازل ہوئیں۔
Top