Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
جس دن کہ سفید ہوں گے بعضے منہ3 اور سیاہ ہوں گے بعضے منہ سو وہ لوگ کہ سیاہ ہوئے منہ ان کے ان سے کہا جائے گا کیا تم کافر ہوگئے ایمان لا کر4 اب چکھو عذاب بدلہ اس کفر کرنے کا
3 یعنی بعضوں کے چہرہ پر ایمان وتقویٰ کا نور چمکتا ہوگا اور عزت و وقار کے ساتھ شاداں وفرحاں نظر آئیں گے۔ انکے برخلاف بعضوں کے منہ کفر و نفاق یا فسق و فجور سے کالے ہوں گے، صورت سے ذلت و رسوائی ٹپک رہی ہوگی۔ گویا ہر ایک کا ظاہر باطن کا آئینہ بن جائے گا۔ 4 یہ الفاظ مرتدین، منافقین، اہل کتاب، عام کفار یا مبتدعین و فساق و فجار سب کو کہے جاسکتے ہیں۔ " مرتد " تو اسی کو کہتے ہیں جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوجائے۔ " منافق " زبان سے اقرار کرنے کے بعد دل سے کافر رہتا ہے۔ " اہل کتاب " اپنے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانے کے مدعی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سب بشارتوں کو جو نبی کریم ﷺ کے متعلق دی گئی تھیں تسیلم کریں اور ان کی ہدایات کے موافق حضور ﷺ پر ایمان لائیں مگر وہ انکار میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ گویا اپنے نبی اور کتاب پر ایمان لانے کے بعد کافر بن رہے ہیں۔ مبتدعین کا دعویٰ زبان سے یہ ہوتا ہے کہ ہم قرآن و سنت کے متبع ہیں اور نبی کریم ﷺ پر ایمان لا چکے ہیں مگر اس کے بعد بہت سی بےاصل اور باطل چیزیں دین میں شامل کر کے یا بعض ضروریات دین کا انکار کر کے اصلی دین سے نکل جاتے ہیں اس طرح وہ بھی ایک درجہ میں اَکَفَرْ تُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کے مخاطب ہوئے۔ رہے فساق جن کا عقیدہ صحیح ہو، اگر ان سے خطاب ہوا تو یہ مطلب ہوگا کہ ایمان لانے کے بعد کافروں جیسے عمل کیوں کئے۔ گویا کفر سے عملی کفر مراد ہوگا اور اگر عام کفار کے حق میں یہ خطاب مانا جائے تو یہ حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ نے سب کو دین فطرت پر پیدا کیا۔ اس فطرت ایمانی کو ضائع کر کے کافر کیوں بنے۔ باقی سیاق آیات سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفر سے کفر فعلی یعنی اختلاف و تفریق مذموم مراد ہو۔ واللہ اعلم۔
Top