Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
بیشک جو لوگ کافر ہیں ہرگز کام نہ آویں گے ان کو ان کے مال اور نہ ان کی اولاد اللہ کے سامنے کچھ اور وہی ہیں ایندھن دوزخ کے4
4  قیامت کے ذکر کے ساتھ کافروں کا انجام بھی بتلا دیا کہ ان کو کوئی چیز دنیا و آخرت میں خدائی سزا سے نہیں بچا سکتی۔ جیسا کہ میں ابتداء سورة میں لکھ چکا ہوں۔ ان آیات میں اصلی خطاب وفد " نجران " کو تھا جسے عیسائی مذہب و قوم کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کہنا چاہیے۔ امام فخر الدین رازی نے محمد بن اسحاق کی سیرت سے نقل کیا ہے کہ جس وقت یہ وفد " نجران " سے بقصد مدینہ روانہ ہوا تو انکا بڑا پادری ابو حارثہ بن علقمہ خچر پر سوار تھا۔ خچر نے ٹھوکر کھائی تو اس کے بھائی کرز بن علقمہ کی زبان سے نکلا " تعس الابعد " (ابعد سے مراد محمد ﷺ تھے۔ العیاذ باللہ) ابو حارثہ نے کہا " تعست امک " کرز نے حیران ہو کر اس کلمہ کا سبب پوچھا۔ ابو حارثہ نے کہا واللہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ (محمد ﷺ وہ ہی نبی منتظر ہیں جن کی بشارت ہماری کتابوں میں دی گئی تھی۔ کزر نے کہا پھر مانتے کیوں نہیں ؟ بولا " لان ھٰؤلاء الملوک اعطونا اموالا کثیرۃ واکرمونا فلو امنا بمحمد ﷺ لاخذوا مناکل ھذہ الاشیاء " (اگر محمد ﷺ پر ایمان لے آئے تو یہ بادشاہ جو بیشمار دولت ہم کو دے رہے ہیں اور اعزازو اکرام کر رہے ہیں سب واپس کرلیں گے) کُرز نے اس کلمہ کو اپنے دل میں رکھا اور آخرکار یہ ہی کلمہ ان کے اسلام کا سبب ہوا ؓ وارضاہ میرے نزدیک ان آیات میں ابو حارثہ کے ان ہی کلمات کا جواب ہے گویا دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ان کے فاسد عقیدہ کا رد کر کے متنبہ فرما دیا کہ وضوح حق کے بعد جو لوگ محض دنیاوی متاع (اموال و اولاد وغیرہ) کی خاطر ایمان نہیں لاتے وہ خوب سمجھ لیں کہ مال و دولت اور جتھے نہ ان کو دنیا میں خدائی سزا سے بچا سکتے ہیں نہ آخرت میں عذاب سے۔ چناچہ اس کی تازہ مثال ابھی " بدر " کے موقع پر مسلمان اور مشرکین کی لڑائی میں دیکھ چکے ہو۔ دنیا کی بہار محض چند روزہ ہے مستقبل کی کامیابی ان ہی کے لئے ہے۔ جو خدا سے ڈرتے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ دور تک یہ مضمون چلا گیا ہے اور عموم الفاظ کے اعتبار سے یہود و مشرکین وغیرہ دوسرے کفار کو بھی خطاب میں لپیٹ لیا گیا۔ گو اصلی مخاطب نصاریٰ نجران تھے۔ واللہ اعلم۔
Top