Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 12
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
کہہ دے کافروں کو کہ اب تم مغلوب ہو گے اور ہانکے جاؤ گے دوزخ کی طرف اور کیا برا ٹھکانا ہے6 
6  یعنی وقت آگیا ہے کہ تم سب کیا یہود، کیا نصاریٰ اور کیا مشرکین عنقریب خدائی لشکر کے سامنے مغلوب ہو کر ہتھیار ڈالو گے، یہ تو دنیا کی ذلت ہوئی اور آخرت میں جو گرم مکان تیار ہے وہ الگ رہا بعض روایات میں ہے کہ " بدر " سے فاتحانہ واپسی کے بعد حضور ﷺ نے یہود کو فرمایا کہ تم حق کو قبول کرلو، ورنہ جو حال قریش کا ہوا، تمہارا ہوگا۔ کہنے لگے۔ اے محمد ﷺ اس دھوکہ میں نہ رہیئے کہ تم نے قریش کے چند ناتجربہ کاروں پر فتح حاصل کرلی۔ ہم سے مقابلہ ہوا تو پتہ لگ جائے گا کہ ہم (جنگ آزمودہ سپاہی اور بہادر) آدمی ہیں اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ " بدر " کی فتح دیکھ کر " یہود " کچھ تصدیق کی طرف مائل ہونے لگے تھے۔ پھر کہا کہ جلدی مت کرو، دیکھو آئندہ کیا ہوتا ہے۔ دوسرے سال " احد " کی عارضی پسپائی دیکھ کر ان کے دل سخت ہوگئے اور حوصلے بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ عہد شکنی کر کے مسلمانوں سے لڑائی کا سامان کیا۔ کعب بن اشرف ساٹھ سواروں کے ساتھ مکہ معظمہ جا کر ابو سفیان وغیرہ سرداران قریش سے ملا اور کہا ہم تم ایک ہیں۔ متحدہ محاذ قائم کرکے محمد ﷺ کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ واللہ اعلم بہرحال تھوڑے ہی دنوں بعد خدا نے دکھلا دیا کہ جزیرۃ العرب میں مشرک کا نام نہ رہا۔ " قریظہ " کے بدعہد یہود تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ " بنی نضیر " جلا وطن ہوئے، نجران کے عیسائیوں نے ذلیل ہو کر سالانہ جزیہ دینا قبول کیا۔ اور تقریبا ایک ہزار سال تک دنیا کی بڑی بڑی مغرور و متکبر قومیں مسلمانوں کی بلندی و برتری کا اعتراف کرتی رہیں۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
Top