Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
جن کو کہا لوگوں نے کہ مکہ والے آدمیوں نے جمع کیا ہے سامان تمہارے مقابلہ کو سو تم ان سے ڈرو تو اور زیادہ ہوا ان کا ایمان اور بولے کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا خوب کارساز ہے2
2 ابو سفیان جب احد سے مکہ کو واپس گیا تو راستہ میں خیال آیا کہ ہم نے بڑی غلطی کی، ہزیمت یافتہ اور زخم خوردہ مسلمانوں کو یونہی چھوڑ کر چلے آئے، مشورے ہونے لگے کہ پھر مدینہ واپس چل کر ان کا قصہ تمام کردیں، آپ ﷺ کو خبر ہوئی تو اعلان فرما دیا کہ جو لوگ کل ہمارے ساتھ لڑائی میں حاضر تھے آج دشمن کا تعاقب کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ مسلمان مجاہدین باوجودیکہ تازہ زخم کھائے ہوئے تھے، اللہ اور رسول کی پکار پر نکل پڑے۔ آپ ﷺ ان مجاہدین کی جمعیت لے کر مقام حمراء الاسد تک (جو مدینہ سے آٹھ میل ہے) پہنچے۔ ابو سفیان کے دل میں یہ سن کر کہ مسلمان اس کے تعاقب میں چلے آرہے ہیں، سخت رعب و دہشت طاری ہوگئی، دوبارہ حملہ کا ارادہ فسخ کر کے مکہ کی طرف بھاگا۔ عبدالقیس کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ آرہا تھا۔ ابو سفیان نے ان لوگوں کو کچھ دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں شائع کریں جن کو سن کر مسلمان ہماری طرف سے مرعوب و خوفزدہ ہوجائیں۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ مکہ والوں نے بڑا بھاری لشکر اور سامان مسلمانوں کے استیصال کی غرض سے تیار کیا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کے دلوں میں خوف کی جگہ جوش ایمان بڑھ گیا اور کفار کی جمیعت کا حال سن کر کہنے لگے۔ (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) 3 ۔ آل عمران :173) ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا خدا ہم کو کافی ہے۔ اسی پر یہ آیات نازل ہوئیں، بعض کہتے ہیں کہ جنگ احد تمام ہونے پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ اگلے سال بدر پر پھر لڑائی ہے، حضرت ﷺ نے قبول کرلیا۔ جب اگلا سال آیا حضرت محمد ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جہاد کیلئے چلو۔ اگر کوئی نہ جائیگا تب بھی اللہ کا رسول تنہا جائیگا۔ ادھر سے ابو سفیان فوج لیکر مکہ سے نکلا تھوڑی دور چل کر کمر ہمت ٹوٹ گئی، رعب چھا گیا، قحط سالی کا عذر کر کے چاہا مکہ واپس جائے، مگر صورت ایسی ہو کہ الزام مسلمانوں پر رہے، ایک شخص مدینہ جاتا تھا، اس کو کچھ دینا کیا کہ وہاں پہنچ کر اس طرف کی ایسی خبریں مشہور کرنا جن کو سن کر مسلمان خوف کھائیں اور جنگ کو نہ نکلیں وہ مدینہ پہنچ کر کہنے لگا کہ مکہ والوں نے بڑی بھاری جمعیت اکٹھی کی ہے تم کو لڑنا بہتر نہیں مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے استقلال دیا۔ انہوں نے یہ ہی کہا کہ ہم کو اللہ کافی ہے۔ آخر مسلمان حسب وعدہ بدر پہنچے، وہاں بڑا بازار لگتا تھا، تین روز رہ کر تجارت کر کے خوب نفع کما کر مدینہ واپس آئے اس غزوہ کو بدر صغریٰ کہتے ہیں۔ اس وقت جن لوگوں نے رفاقت کی اور تیار ہوئے ان کو بشارت ہے کہ احد میں رحم کھا کر اور نقصان اٹھا کر پھر ایسی جرات کی۔ مسلمانوں کی اس جرات و مستعدی کی خبر سن کر مشرکین راستہ سے لوٹ گئے چناچہ مکہ والوں نے اس مہم کا نام " جیش السویق " رکھ دیا۔ یعنی وہ لشکر جو محض ستو پینے گیا تھا پی کر واپس آگیا (تنبیہ) یہ جو فرمایا (لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا) 3 ۔ آل عمران :172) محض ان کی مدح سرائی اور تنویہ شان کیلئے ہے اور نہ وہ سب کے سب ایسے ہی تھے۔
Top