Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 179
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَذَرَ : کہ چھوڑے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے عَلٰي : پر مَآ : جو اَنْتُمْ : تم عَلَيْهِ : اس پر حَتّٰى : یہانتک کہ يَمِيْزَ : جدا کردے الْخَبِيْثَ : ناپاک مِنَ : سے الطَّيِّبِ : پاک وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُطْلِعَكُمْ : کہ تمہیں خبر دے عَلَي : پر الْغَيْبِ : غیب وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَجْتَبِىْ : چن لیتا ہے مِنْ : سے رُّسُلِھٖ : اپنے رسول مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے فَاٰمِنُوْا : تو تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِھٖ : اور اس کے رسول وَاِنْ : اور اگر تُؤْمِنُوْا : تم ایمان لاؤ وَتَتَّقُوْا : اور پر وہیز گاری فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اللہ وہ نہیں کہ چھوڑ دے مسلمانوں کو اس حالت پر جس پر تم ہو جب تک کہ جدا نہ کر دے ناپاک کو پاک سے اور اللہ نہیں ہے کہ تم کو خبر دے غیب کی لیکن اللہ چھانٹ لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے4 سو تم یقین لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور اگر تم یقین پر رہو اور پرہیزگاری پر تو تم کو بڑا ثواب ہے5
4 یعنی جس طرح خو شحالی اور مہلت دینا کفار کے حق میں مقبولیت کی دلیل نہیں، اسی طرح اگر مخلص مسلمانوں کو مصائب اور ناخوشگوار حوادث پیش آئیں (جیسے جنگ احد میں آئے) یہ اس کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک مغضوب ہیں، بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس گول مول حالت پر چھوڑنا نہیں چاہتا جس پر اب تک رہے ہیں۔ یعنی بہت سے کافر ازراہ نفاق کلمہ پڑھ کر دھوکہ دینے کے لئے ان میں ملے جلے رہتے تھے جن کے ظاہر حال پر منافق کا لفظ کہنا مشکل تھا۔ لہذا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے واقعات و حالات بروئے کار لائے جو کھرے کو کھوٹے سے اور پاک کو ناپاک سے کھلے طور پر جدا کردیں۔ بیشک خدا کو آسان تھا کہ تمام مسلمانوں کو بدون امتحان میں ڈالے منافقوں کے ناموں اور کاموں سے مطلع کردیتا لیکن اس کی حکمت و مصلحت مقتضی نہیں کہ سب لوگوں کو اس قسم کے غیوب سے آگاہ کردیا کرے۔ ہاں وہ اپنے رسولوں کا انتخاب کر کے جس قدر غیوب کی یقینی اطلاع دینا چاہے دے دیتا ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ عام لوگوں کو بلاواسطہ کسی غیب کی یقینی اطلاع نہیں دیجاتی انبیاء (علیہم السلام) کو دیجاتی ہے۔ مگر جس قدر خدا چاہے۔ 5 یعنی خدا کا جو خاص معاملہ پیغمبروں سے ہے اور پاک و ناپاک کو جدا کرنے کی نسبت جو عام عادت حق تعالیٰ کی رہی ہے، اس میں زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ و رسول کی باتوں پر یقین رکھو اور تقو یٰ و پرہیز گاری پر قائم رہو، یہ کرلیا تو سب کچھ کما لیا۔
Top