Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 191
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِھِمْ : اپنی کروٹیں وَيَتَفَكَّرُوْنَ : اور وہ غور کرتے ہیں فِيْ خَلْقِ : پیدائش میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین رَبَّنَا : اے ہمارے رب مَا : نہیں خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا هٰذَا : یہ بَاطِلًا : بےفائدہ سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے فَقِنَا : تو ہمیں بچا لے عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے6  اور فکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں کہتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ عبث نہیں بنایا تو پاک ہے سب عیبوں سے سو ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے1
6 یعنی کسی حال خدا سے غافل نہیں ہوتے۔ اس کی یاد ہمہ وقت ان کے دل میں اور زبان پر جاری رہتی ہے جیسے حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی نسبت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کان یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہٖ نماز بھی خدا کی بہت بڑی یاد ہے، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر پڑھ لے بعض روایات میں ہے کہ جس رات میں یہ آیات نازل ہوئیں نبی کریم ﷺ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حالت میں اللہ کو یاد کر کے روتے رہے۔ 1 یعنی ذکر و فکر کے بعد کہتے ہیں کہ خداوندا ! یہ عظیم الشان کارخانہ آپ نے بیکار پیدا نہیں کیا، جس کا کوئی مقصد نہ ہو یقیناً ان عجیب و غریب حکیمانہ انتظامات کا سلسلہ کسی عظیم و جلیل نتیجہ پر منتہی ہونا چاہئے۔ گویا یہاں سے ان کا ذہن تصور آخرت کی طرف منتقل ہوگیا جو فی الحقیقت دنیا کی موجودہ زندگی کا آخری نتیجہ ہے اسی لئے آگے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعاء کی، اور درمیان میں خدا تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہ بیان کر کے اشارہ کردیا کہ جو احمق قدرت کے ایسے صاف وصریح نشان دیکھتے ہوئے تجھ کو نہ پہچانیں یا تیری شان کو گھٹائیں یا کار خانہ عالم کو محض عبث و لعب سمجھیں، تیری بارگاہ ان سب کی ہزلیات و خرافات سے پاک ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعات الٰہیہ میں غور و فکر کرنا وہی محمود ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ خدا کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو باقی جو مادہ پرست ان مصنوعات کے تاروں میں الجھ کر رہ جائیں اور صانع کی صحیح معرفت تک نہ پہنچ سکیں، خواہ دنیا انہیں بڑا محقق اور سائنسداں کہا کرے، مگر قرآن کی زبان میں وہ اولو الالباب نہیں ہوسکتے، بلکہ پرلے درجہ کے جاہل و احمق ہیں۔
Top